جاہل وہ نہیں ہوتا جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا، حقیقت میں جاہل وہ ہوتا ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے جاہل رہنا چاہتا ہے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس انسان سے وہ جانور بہتر ہے جسے اپنی عزت نفس کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا۔ اونٹ جیسا آرام سے ہینڈل کیا جانے والا جانور اور کوئی نہیں۔ ایک سات ،آٹھ سال کا بچہ بھی اسے پیار سے اشارہ کرے تو وہ آرام سے بیٹھ جاتا ہے اور اس کا سر جھک جاتا ہے وہ بڑے سکون سے اپنی سواری کو اپنی کوہان پر بیٹھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور پھر بڑے اطمینان سے چلتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ لیکن آپ نے اونٹ کے ساتھ بلاوجہ کسی وجہ کے غصہ کیا یا اس کو اشتعال دلایا تو پھر یہی تابع فرمان جانور خونخوار بھی بن جاتا ہے۔ آپ خواہ سیکڑوں، ہزاروں کے مجمع میں جاکر چھپ بھی جائیں تو وہ گھوم پھر کر آپ کو ڈھونڈ لے گا اور گردن سے دبوچ لے گا۔ اس لئے سیانے کہتے ہیں کہ اونٹ کے غصے سے بچنا چاہئے۔ کینہ شُتر ایک ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے۔ یعنی اونٹ کا انتقام جو بہت شدید بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھی فوری بھی کیونکہ وہ اپنے مالک کی عزت کرتا ہے اور عزت کروانا بھی جانتا ہے۔ سیرت طیبہ کے واقعات میں ایک حیران کن واقعہ کا ذکر ملتا ہے۔ اس دن ہر طرف گلیوں میں شور مچ گیا ،لوگ ادھر ادھر دوڑ رہے تھے، بچے دبک کر ماؤں کی گود میں چھپ گئے تھے، بڑے بوڑھے سہم کر ایک طرف ہوگئے۔ نوجوان اسے پکڑنے کے لئے بھاگ رہے تھے لیکن وہ کسی کے قابو میں نہیں آرہا تھا، یہ ایک اشتعال میں آیا ہوا اونٹ تھا جس کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئی تھیں اور زبان سے جھاگ نکل رہا تھا اور وہ لوگوں کو کچلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس خونخوار کیفیت میں مبتلا اونٹ کی اطلاع سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ آپ اندر تشریف لے جائیں، نامعلوم یہ جانور آکر کیا کرے، میرے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اسے میرے پاس آنے دو۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو جانور بھی پہچانتے تھے، کیوں نہ پہچانتے کہ آپ رحمت کائنات ہیں، جانور بھی آپ کے امتی ہیں، اور آپ کے ادب اور مقام و مرتبہ کو جانتے اور پہچانتے ہیں، وہ اونٹ جسے لوگ پاگل سمجھ رہے تھے دوڑتا ہوا آیا اور آقا علیہ السلام کے قدموں میں گر گیا اس نے پہلے سجدہ کیا۔ کیونکہ انسان کے لئے رب تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا حرام ہے۔ جانوروں کو اجازت تھی کہ وہ رحمة اللعالمین کو سجدہ کریں اور تعظیم کا اظہار کریں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دے کر وہ اپنی مخصوص آواز میں بلبلانے لگا۔ میرے آقا نے اس کے مالک کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارا اونٹ ہے؟ اس نے جواب دیا جی ہاں، آپ نے فرمایا یہ تمہاری شکایت کر رہا ہے، جب تک یہ نوجوان تھا اور تمہارا سامان اٹھایا کرتا تھا تم اس کو پوری خوراک مہیا کرتے تھے اب بوڑھا ہوگیا ہے اور زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو تم نے اس کا کھانا مطلوبہ مقدار میں دینا بند کردیا ہے۔ یہ پاگل نہیں ہے، اپنا حق طلب کر رہا ہے، اس طرح اس اونٹ کی شکایت سے اس سے کی جانے والی حق تلفی کا ازالہ ہوا۔ جانور ہوکر بھی اس نے اپنے حقوق کے لئے اپنے انداز سے احتجاج کیا جبکہ انسان اشرف المخلوقات ہوکر بھی شعبدہ باز سیاسی لیڈروں سے مسلسل دھوکہ کھاتاآرہا ہے اور خاموش ہے۔ جانوروں کو اپنی عزت نفس کا کس قدر احساس ہوتا ہے اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ مشہور مبلغ مولانا طارق جمیل بتاتے ہیں۔ ان کے والد ایک زمیندار تھے جنہوں نے گائیں، بھینسیں پال رکھی تھیں۔ ایک بھینس نے ایک مرتبہ اچانک کھانا بند کردیا، یہ اس کا خاموش احتجاج تھا، جانوروں کے ڈاکٹر نے اچھی طرح دیکھ لیا لیکن کوئی بیماری نظر نہ آئی۔ مولانا طارق جمیل کے والد نے گاؤں کے ایک سیانے حکیم کوبلوایا، یہ حکیم صرف طبیب ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ حکمت یعنی ’وزڈم‘ بھی رکھتے تھے اس لئے حکیم کہلاتے تھے۔ اس نے بھینس کو اچھی طرح دیکھا اس کی عادات و حرکات کو دیکھتا رہا اور پھر کہا اس کو چارہ کون ڈالتا ہے؟ نوکر سامنے لایا گیا تو حکیم صاحب نے بھینس کے سامنے اس شخص کو تین چار جوتے لگائے۔ بھینس دیکھتی رہی اور پھر جیسے اس کے پورے چہرے پر اطمینان آگیا۔ اس کے سامنے چارہ ڈالا گیا تو اس نے جگالی شروع کردیا۔ اپنے علاقے کے خوشحال زمیندار نے پوچھا حکیم صاحب اس کی وجہ کیا تھی؟ کیوں اس نے کھانا پینا بند کیا تھا اور اب کیوں کھانے لگی ہے؟ حکیم صاحب نے بتایا دراصل آپ کے اس نوکر نے اس بھینس کی بے عزتی کی تھی، جس کی وجہ سے وہ دکھی تھی اور احتجاجاً اس نے کھانا پینا ترک کردیا تھا اب اس نوکر کی اس کے سامنے بے عزتی کی گئی ہے تو بھینس کو قرار آگیا اور اس کو اپنی بے عزتی کا بدلہ مل گیا ہے۔ یعنی بھینس کو بھی اپنی عزت نفس کا احساس تھا۔ کیا پاکستان کے شہری جن کے ماتھے پر حضرت انسان کا ٹائٹل سجا ہے جسے اللہ رب العالمین ”ولقد کرمنا بنی آدم“ کے اعزاز سے نواز کر تکریم آدمیت کا سدابہار ایوارڈ دیا ہے جسے ”لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“ کے مطابق خوبصورت انداز سے تخلیق کیا ہے کیا اس طرح سیاسی جماعتوں میں اپنے خود ساختہ لیڈروں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ ان سے جھڑکیاں کھاتے رہیں گے ان کے مزارع کی حیثیت سے بلکہ اس سے بھی کم تر حیثیت میں کام کرتے رہیں گے۔ میں چونکہ ایک دیہاتی پس منظر سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے جانتا ہوں کہ مزارع کو تو زمیندار ناراض نہیں کر سکتا کیونکہ گندم کی کٹائی اور کپاس کی چُنائی کے موسم میں وہ اور اس کا خاندان تعاون کریں تو زمیندار کی سارے سال کی محنت اور سرمایہ کاری برباد ہوسکتی ہے۔ اس لئے بعض دفعہ مزارع کے ناز نخرے برداشت کرنے پڑتے ہیں اور فصل کی کٹائی پر اس کو اس کا حصہ بھی دیا جاتا ہے لیکن یہ خاندان وراثت کے طور پر ملنے والی جماعتوں کے لیڈروں کے کارکن، وڈیروں، لٹیروں سرمایہ داروں کی خاندانی لونڈیوں کی طرح ان کے قبضہ میں آئی ہوئی سیاسی جماعتیں پہچانی جاتی ہیں ان کے غریب کارکن دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ جن کی زندگی جلسوں میں دریاں اور کرسیاں بچھاتے اور لگاتے گزر جاتی ہے۔ بس اپنے لیڈروں کی ایک مسکراہٹ کے محتاج رہتے ہیں۔ ان کی کُل کائنات ان کے اپنے لیڈر کے ساتھ کھینچی ہوئی ایک تصویر ہوتی ہے جسے وہ ساری زندگی اپنے گھر کے اہم ترین کمرے میں سجا کر رکھتے ہیں اور صبح و شام اس کا دیدار کرتے ہیں۔ وہ اس امید پر اپنے لیڈر کے رومان میں مبتلا رہتے ہیں کہ کبھی تو وہ روشن صبح طلوع ہوگی جب ہمارے گھر میں بھی اجالا ہوگا اور ہمارے دکھ درد کی اندھیری رات کا خاتمہ ہوگا۔ لیکن ہر الیکشن کے بعد پارٹی کو پراپرٹی کے طور پر اپنے قبضہ میں رکھنے والے خود کو مفادات حاصل کرتے ہیں خواہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں۔ لیکن کارکنوں کو جھوٹی تسلی پر ٹرخاتے رہے ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا لوگ جاگیں گے اور عزت و عظمت انسانیت کا شرف حاصل کرکے رہیں گے۔