• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرت کھیتوں کھلیانوں کوزرد رنگ کے پھول نہایت فیاضی سے عطا کرتی ہے۔ بہار کے آغاز کے ساتھ ہی سارے گاؤں میں ہر طرف پیلے رنگ کے پھول بکھرے نظر آتےہیں۔ پیر قلندر شاہ کے مزار پر بہار کے دِنوں میں میلہ لگتاہے، جہاںامیر ،غریب ، کسان ، زمین دار سب بڑے جوش و خروش سے شریک ہوتے ہیں۔ رنگ برنگی دھوتیاں تیار کی جاتی ہیں، چولے بسنتی رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ سُرمہ ، صابن خریدا جاتاہے۔ کوئلے کی استریوں سے کلف لگے بسنتی کُرتوں کی شکنیں نکالی جاتی ہیں۔ ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالی جاتی ہےاور چمٹے کی تال پر حال آتےلوگوں کا جمِ غفیر پیر قلندر شاہ کے مزار کی طرف چل پڑتاہے۔

چوہدری تاج دین عُمر کے اس حصّے میں تھا ،جب بالوں میں آنے والی چاندی، سیاہی پر سبقت لے جاتی ہے۔ نیلے لاچے پر بسنتی چولا پہنے وہ بھی پیر قلندر شاہ کے مزار کی طرف رواں تھا۔ آج کبڈّی کا میچ تھا اور وہ نور پور کی ٹیم کا کپتان تھا۔تاج دین عرف تاجو، کبڈّی کا اتنا عمدہ کھلاڑی تھا کہ سو،سو کوس دورسے لوگ اس کا کھیل دیکھنے آتے تھے۔ ایک دفعہ اس کے شکنجے میںکوئی کھلاڑی آجاتا، تو اُس کے لیے نکلنا مشکل ہی ہوتا تھا۔گاؤں کی سرداری کا تاج پشت در پشت چوہدری تاج دین کے خاندان کے سر سجتا آرہا تھا۔ کچھ سرداری کا زعم اور کچھ کبڈّی کی شہرت ،چوہدری تاجو جدھر سے گزرتا رشک خود بخود لوگوں کی آنکھوں میں اتر آتا اور ہاتھ اپنے آپ ہی اُٹھ کر سلام کے لیے پیشانی پر چلے جاتے۔ جب شہرت بھی ہو، طاقت بھی ہو اور بندہ اقتدار کے مزے بھی لوٹ رہا ہو، تو غرور کا خمار خود بخودہی سر پر چڑھ جاتا ہے۔

آج کے میلے کاجوش وخروش پچھلے تمام میلوں سے بڑھ کر تھا۔چوہدری تاجو بھنگڑے ڈالتا، گردن ٹیڑھی کیے جلوس میں سب سے آگے تھا۔ دُور ہی سے پیر قلندر شاہ کے مزار کا سنگِ مرمر سے تراشا دودھیا گنبد نظر آنا شروع ہو گیاتھا۔ سورج کی کرنیں اس کے سنہری کلس سے ٹکرائیں تو چمک دمک دیکھ کر دم بخود رہ گئیں۔گنبد کی بنیادیں چھت سے منسلک تھیںاور چھت ایک ہلکی سی ڈھلوان ،سنگِ مر مر کی جالیوں سے بنی منڈیر پر ختم ہوتی۔ سنگِ مرمر کی وہ منڈیر ہشت پہلو سفید دیواروں پر کھڑی تھی، ان آٹھ دیواروں میں آٹھ محرابی دروازے تھے۔ ایک ، ایک در وازے میں شیشم کی لکڑی کے بھاری بھر کم کواڑ آویزاں تھے، جن پر کاریگروں کی انگلیوں نے اَن گنت بیل بُوٹے ابھار رکھے تھے۔ دورازے کے سِروں پر محرابی طاقچے تھے، جن میں رات کے وقت گھی کے چراغ جلا کر رکھے جاتے ۔ان محرابی طاقچوں کے اوپر دیواروں کی پیشانی پہ کھدائی کرکے آیت الکرسی کے حروف لکھے ہوئے تھے۔ 

غور سے دیکھنے پر مزار آیت الکرسی کا ورد کرتا محسوس ہوتا تھا۔ چوہدری تاج دین کا جلوس مزار کے قریب پہنچا۔ مزار کے چاروں طرف وسیع میدان تھا، جس میں میلے کی رونق سج چُکی تھی۔ کہیں سرکس دِکھایا جا رہا تھا، جلیبی کی دُکانیں لگی تھیں، تو کسی احاطے میں پنجابی دُھنوں پہ رقص جاری تھا۔ اسی گہما گہمی میں ایک طرف، ایک الاؤ روشن تھا۔ درویش مست ہو کر الاؤ کے گرد دھمال ڈال رہے تھے۔ انہی فقیروں میں مسیتا موچی درویش بھی تھا۔ سفید بال اور داڑھی میل کھا کھا کر سیاہی مائل گدلی ہو چکی تھی ۔ ڈھول کی تھاپ پہ دھمال ڈالتے ہوئے مسیتاموچی خود سے بے خودد ہو کر جانے کس دنیا میں پہنچ چکا تھا۔

مزار سے کچھ فاصلے پرایک بارہ دری تھی، جس میں پیر عربی شاہ سرکار بیٹھتے تھے۔ روحانیت ان کے چہرے سے برستی تھی ،متبسم چہرہ ،دودھ کی طرح سفید زلفیں اور دودھیا سفید داڑھی، کبھی کسی نےان کی پیشانی پہ شکن نہیں دیکھی تھی۔ اُن کا لہجہ فصیح و بلیغ تھا۔ مصر کی جامع الازہر سے فارغ التّحصیل تھے۔ اصل نام تو سیّد نبی بخش تھا مگر عربی زبان پہ دسترس کی وجہ سے پیر عربی شاہ مشہور ہو گئے۔ پیر صاحب میلے میں ہونے والی خرافات سے الجھن محسوس کرتے تھے۔ مگر چوںکہ صلحِ کُل کے مشرّب پر قائم تھے، تو کسی پر سختی نہ کرتے ۔ دل توڑنے کو دنیا کا سب سے بڑا جرم تصوّر کرتے تھے۔ ان کا پیغام امن ، پیار ومحبّت تھا۔وہ خود کو بابا بلّھے شاہ، شاہ حُسین، وارث شاہ، بابا فرید اور میاں محمّد بخش کے قبیلے کا فرد سمجھتے تھے۔

اس دفعہ میلے کی رونق میں دُگنا تگنا اضافہ نظر آرہا تھا کہ چوہدری تاجو کو الف آباد کے راج علی عُرف راجو بگھیاڑنے للکاراتھا۔ اس نے سرِعام اعلان کیا تھاکہ ’’مَیںنےچوہدری تاجو کی ٹانگیں،بازو دس جگہ سے توڑے تو میرا نام راج علی نہیں۔‘‘ اس کے نام کے ساتھ ’’بگھیاڑ ‘‘اس کی طبیعت کی خوں خواری اور بجلی کی سی پُھرتی کی وجہ سے لگ گیا تھا۔ چوہدری تاجو کو جب راجو بگھیاڑکے چیلنج کی خبر پہنچی ،تو اس کےتن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس چیلنج قبول کرنے کے بعد فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر راجو نے اسے ہرا دیا تو وہ اُسی دن مندر والے اندھےکنویںمیں چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگا لے گا۔تاجو، پیر عربی شاہ کامُرید تھا ۔ 

جلوس، میلے کے پنڈال سے ہوتا ہوا سیدھا بارہ دری کی طرف چلا گیا۔ پیر صاحب کے احترام میں ڈھول ، شہنائی اور دھمال کا سلسلہ رُک گیا۔ سب لوگ احتراماً سر جُھکا ئےبارہ دَری میں کھڑے تھے اورتاجو ان کے قدموں میں بیٹھا تھا۔ ’’پیرصاحب! آج چوہدری تاجو کی پگ پر کسی نے ہاتھ ڈالا ہے۔آپ کی دعاؤںکی اشد ضرورت ہے۔‘‘’’دیکھ تاجو! فقیروں کے ہاتھ میں صرف دُعاہے۔ دُعا کہ قبولیت اور صلہ اُس پر وردگار کے ہاتھ ہے۔ ‘‘ پیر صاحب نے انگلی آسمان کی طرف اُٹھاتے ہوئے کہا۔’’ہار جیت کا فیصلہ آسمانوں والے ہی کے ہاتھ ہے۔ ہاں، ہماری دعا تمہارے ساتھ ضرورہے۔سو، جوبھی فیصلہ قدرت کی طرف سے کیا گیا، اُس پر آمین کہنا۔‘‘ یہ کہہ کر پیر صاحب نے ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھادئیے ۔ تاجو نے پیر صاحب کا ہاتھ چوما اور دنگل کے لیے چل نکلا۔پالا جم چکا تھا، جس کے ارد گرد لوگوں کا ایک ازدحام اکٹھا تھا۔ شور اتنا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

تاجو نےجب غصّے سے راجو کو گھورا تو سُرخ یاقوتی ڈورے اُس کی آنکھوں میں اتر آئے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا ، جیسےدو دیو آمنے سامنے ہیں۔’’راجو! سمجھ لے آج تیرا نام بدل جائے گا۔ آج کے بعد ساری دنیا تجھے راجو بگھیاڑ کی بجائے راجو بھیگی بلّی کے نام سے یاد کرے گی۔‘‘تاجو نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔ ’’چوہدری تاج دین! لگتا ہے آج تو آخری بار پالے میں اترا ہے۔ آج کے بعد تیرا منہ اس قابل نہیں رہ جائے گا کہ لوگوں کو اپنی شکل دکھا سکے۔‘‘راجو نے جھک کر اپنی ران پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔بالآخر مقابلہ شروع ہوگیا۔ریفری کی سیٹی کے ساتھ ہی پالے میں خاموشی چھا گئی۔ راجو چیتے کی طرح تاجو کے نصف دائرے میں داخل ہوا۔ اس نے دائیں بائیں سے جھکائی دے کر تاجے کو چھونے کی کوشش کی، مگر تاجوبچ نکلا۔ 

اچانک اس نے بائیں کندھے کو ہاتھ لگانے کی کوشش کی، تاجو نے کندھا پیچھے کھینچا ہی تھا کہ اُس نے دائیں ہاتھ کا تھپڑ اُس کے منہ پر جڑ دیا۔تھپّڑ جڑتے ہی راجو پیچھے کی طرف بھاگا۔اسی اثنا،تاجو شعلے کی طرح راجو کے پیچھے لپکا۔ راجو دائرے کے بیچ کھنچی لکیر پار کرنے ہی والا تھا کہ تاجو نے لپک کر اُس کی ٹانگ پکڑ لی اور اُسے پیچھے کھینچ لیا۔ اگلے ہی لمحے ڈھولچی ڈھول پیٹ پیٹ کر بے حال ہوگئے۔لوگ سمجھ گئے کہ راجو کی ٹانگ اب لوہے کے شکنجے میں آ چُکی ہے۔اس نے بڑی زور آزمائی کی، مگر شکنجے سےنکلنے میں ناکام رہا۔ جیسے ہی کبڈّی کا وقت ختم ہوا، لوگ دوڑتے ہوئے پالے میں داخل ہوگئے۔ اُن سب میں آگے آگے ملنگ،مسیتاموچی تھا۔ چوہدری تاجو کھڑا ہوگیا۔ اُس نے نفرت سے راجو کی طرف تھوکا۔وہ ایسے زمین پر اوندھے منہ پڑا تھا، جیسے لاش۔ تاجو نے مغرور نظروںسے سب کودیکھا۔مسیتا ملنگ ناچتا کودتا، اُس کے قریب آن پہنچا اور اُسے جپھی ڈال دی۔ تاجو کو اُس سے بہت کراہیت آئی ۔ اُس نے نفرت سے اُسے پیچھے جھٹک کر،دو تین تھپّڑ جڑ دیئے۔ مسیتے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ،وہ سِسکتا ہوا پیچھے ہٹ گیا۔ لوگوں نے کچھ دیر حیرت سے دیکھا، پھر سب بھول کر تاجو کو کندھوں پر اُٹھا لیا۔

مسیتا ملنگ جب بارہ دری کے نیچے پہنچا تو اُس سے پہلے تاجو کی بدسلوکی کی خبر پیر عربی شاہ صاحب تک پہنچ چکی تھی۔ مسیتے کے پیچھے پیچھے تاجو کا جلوس بھی بارہ دری کے نیچے پہنچ گیا۔ بسنتی چولا، لال پگ پہنے، غرور سے گردن اکڑائے چوہدری تاج دین پیر صاحب کی مسند کے بائیں جانب آ کھڑ اہوا، جب کہ دائیں جانب میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس مسیتا ملنگ کھڑا تھا۔’’چوہدری تاج دین! یہ بابا بلھے شاہ، شاہ حُسین اور وارث شاہ کی دھرتی ہے۔ یہ تو پیار، امن اور محبّت سے رہنے والوں کا دیس ہے۔ تیرے جیسا ظالم یہاں کیسے پیدا ہوگیا… یہ دھرتی تو پیار کرنا، غریبوں کو سینے سے لگانا سکھاتی ہے، تُو نے نفرت ، غرور ، تکبّرکے تھپّڑ مارنے کہاں سیکھ لیے؟؟‘‘پیر صاحب نے چوہدری تاج دین کو دیکھتے ہی آڑے ہاتھوں لیا۔اپنے مُرشد کی باتیں سُن کر اس کا جسم تھر تھرانے لگا۔

گردن کا سریا اچانک ہی غائب ہوگیا تھا۔ پورا جسم پشینے میں شرابور ہوگیا۔پیرصاحب اُٹھے اور مسیتے کو گلے لگا لیا،اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اپنے ساتھ مسند پر بٹھا لیا۔ تاجو پیر صاحب کے قریب ہوا، تو انہوں نےمنہ دوسری طرف موڑ لیا۔اس نے روتے ہوئےآگے بڑھ کر پیر صاحب کے پاؤں چھونے کی کوشش کی، تو انہوں نے اپنے پاؤں پیچھے کھینچ لیے۔ لوگوں نے پہلی بار پیر عربی شاہ کی پیشانی پہ شکنیں اور مزاج میں تلخی دیکھی۔ تاجو کو لگا،جیسے کسی نےاُس کے جسم سے یک دَم ساری طاقت کھینچ لی ہےاوروہ اوندھے منہ گر پڑا۔

تازہ ترین