• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں سچ کا کھوج لگانے اور تحقیق کرنے کی روایت زوال پذیر ہے۔ تیز رفتار زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کالم نگار اور اینکر پرسنز زیادہ تر سنی سنائی باتوں پر گزارا کرتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ اس طرح تشکیل پانے والی سوچ کو بدلنا نہایت مشکل کام ہے۔ نقار خانے میں طوطی اور وہ بھی مجھ جیسی نحیف آواز کون سنے گا؟ مثال کے طور پر ڈاکٹر مبارک علی قراردادِ پاکستان (1940)کے حوالے سے تاریخ سے گریزاں دکھائی دے رہے ہیں۔ میں تاریخی اور ناقابلِ تردید شواہد سے اُن کی باتوں کا پول کھول چکا ہوں لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آتے۔ تجربے سے یہ بھی سیکھا ہے کہ اگر جھوٹ تواتر سے بولا جائے تو لوگ اُسے سچ مان لیتے ہیں اور پھر ہزار تحقیق بھی اسے لوگوں کے ذہنوں سے نہیں نکال سکتی۔ کچھ مہربانوں نے اڑا دی کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا ترانہ لکھوایا جو ریڈیو پاکستان سے کئی سال نشر ہوتا رہا۔ میں نے ایک ماہ اس پر تحقیق کی اور ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے لیکن افسوس کہ کچھ میڈیا حضرات چند سیکولر پروفیسروں کے ساتھ مل کر ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان فنکاروں نے یوٹیوب پر اپنے اپنے چینل شروع کر دیے ہیں جن کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ایسے دانشوروں اور پروفیسروں کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں جو نہ صرف پاکستان کی بنیادوں پر ہتھوڑے چلاتے رہتے ہیں بلکہ قائداعظم کو بھی ہوشیاری سے اپنے ایجنڈے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسلوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت نہیں۔ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور کی پیداوار یہ نسلیں ان چینلز کو سن سن کر اپنے ہی ملک اور بانیٔ پاکستان کے بارے میں شکوک، بدگمانیوں اور بالآخر نفرت کا شکار ہو رہی ہیں۔

تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے بعد ہمیں سیاسی ورثے میں صرف دو قسم کے مخالفین ملے جنہوں نے قیامِ پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اول نہرو اور گاندھی کے پیرو، دوم احراری جنہوں نے ڈٹ کر پاکستان کی مخالفت کی اور قائداعظم کے خلاف فتوے دیے۔ کمیونسٹ پارٹی نے ماسکو کے حکم کے تحت قیامِ پاکستان کی حمایت کی لیکن بعد ازاں اور خاص طور پر پنڈی سازش کے بےنقاب ہونے کے بعد کمیونسٹ مخالفین کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ روشن خیالی کے نام پر سیکولر ازم پروان چڑھا تو مذہب بیزار عناصر بھی اس لہر کا حصہ بن گئے۔ چند ایک کے علاوہ ان حضرات کا مطالعہ نہایت سطحی تھا، سچ کی کھوج لگانا اُن کی ضرورت نہیں تھی لیکن پروپیگنڈے کے فن میں یہ حضرات یکتائے روزگار تھے اور آج بھی ہیں۔ یہ ساری فکری قوتیں مل کر سیکولر ازم کی آڑ میں پاکستان بیزار، مذہب بیزار اور پاکستان کی نظریاتی اساس بیکار ہونے کی سوچ پروان چڑھا رہی ہیں اور قائداعظم کو ایک لادین شخصیت ثابت کرنے کے لئے رات دن مصروف ہیں۔ ان کا ہدف نوجوان نسلیں ہیں جن کے ذہنوں میں وہ یہ زہر گھول رہے ہیں۔ ان کی تان عام طور پر فوج مخالف بیانیے پر ٹوٹتی ہے۔ غور سے دیکھیں تو یہ اکھنڈ بھارت کا منصوبہ لگتا ہے جس کے تحت قیامِ پاکستان کو انگریزوں کا تحفہ اور قائداعظم کو انگریزوں کے ’’سٹوج‘‘ کا پروپیگنڈا نوجوان نسلوں کے ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا جا رہا ہے۔ یہ حضرات اس قدر معصوم ہیں کہ جسٹس منیر، کائوس جی اور پرویز ہود بھائی اپنے ساتھیوں سمیت تین چار دہائیوں تک قائداعظم کے ایک بیان کو بنیاد بنا کر انہیں سیکولر ثابت کرتے رہے۔ اللہ بھلا کرے برطانوی مصنف سلینہ (SALEENA)کا جس نے تحقیق سے اپنی کتاب میں ثابت کیا کہ یہ الفاظ قائداعظم کے نہیں ہیں۔ اس نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس بیان کی انگریزی غلط ہے، قائداعظم غلط انگریزی نہیں لکھ سکتے تھے لیکن ان ’’عظیم‘‘ دانشوروں کو پتا ہی نہ چلا۔

ایک احراری مولوی صاحب مجھے ایک دہائی سے یہ طعنے دے رہے ہیں کہ تمہارے قائداعظم کی تقریب حلف برداری میں تلاوت تک نہ کی گئی اور تمہارے قائداعظم نے برطانوی حکومت سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ دوسری طرف منشی عبدالرحمٰن نے اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کر دیا کہ قائداعظم نے پاکستان کی پہلی پرچم کشائی مولانا شبیر عثمانی سے کروائی۔ ریٹنگ کے اسیر اینکر پرسنوں اور کالم نگاروں نے قائداعظم کو اسٹیج پر رکھی کرسی پر بٹھا دیا پھر اٹھا دیا۔ میں نے سچ کا کھوج لگانے کے لئے اَن گنت کتابیں اور دستاویز کا مطالعہ کیا۔ کسی مصنف نے بھی اس تقریب کی تفصیلات بیان نہیں کی۔ تحقیق کے دوران اس تقریب کی سرکاری ڈاکیومنٹری مل گئی جس نے اس سہ آتشی پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ گزشتہ کالم کا محرک یہی جذبہ تھا۔ ثابت ہو گیا کہ تلاوت قرآن مجید نہ کرنے کا الزام غلط، پرچم کشائی مولانا عثمانی سے کروانے کا دعویٰ بےبنیاد، کرسی پر بیٹھنے اٹھنے کا افسانہ جھوٹ اور برطانیہ سے حلف وفاداری تو بہت بڑا بہتان ہے۔ ڈاکیومنٹری میں حلف اٹھاتے ہوئے قائداعظم کے یہ الفاظ تقریب میں گونج رہے ہیں کہ میں وفادار رہوں گا

Affirm Faith, religion and constitution of Pakistan as by law established.

یہ حلف مذہب اور دستورِ پاکستان سے وفاداری کا حلف تھا۔ خدارا جھوٹا پروپیگنڈا بند کر دو، آخر اللہ کو جان دینی ہے۔

دوستو اس تقریب کے دو مناظر میرے دل کو چھو گئے۔ اول چودہ اگست کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کے بعد وائسرائے مائونٹ بیٹن اور قائداعظم کا اکٹھے مین دروازے سے باہر آنا، غمگین دھنوں میں برطانوی جھنڈے کا اتارا جانا اور پھر قائداعظم کا اسے تہ کر کے مائونٹ بیٹن کو اس انداز سے دینا کہ ’’میں نے خون بہائے بغیر تمہاری نوے سالہ غلامی کا طوق اتار دیا۔ جا یہ اپنا طوقِ غلامی یونین جیک لے جا اور اسے عجائب گھر میں سجا لے‘‘۔ دوسرا منظر تقریب حلف برداری میں سورۃ النصر کی تلاوت ہے۔ نازل ہونے والی اس آخری سورۃ کا فتح مبین، تکمیلِ مشن اور حصولِ منزل کے حوالے سے انتخاب قابلِ داد ہے۔

نوٹ:گزشتہ کالم میں تخلیق کردہ افسانوں کو انسانوں کو بنا دیا گیا، معذرت۔ قارئین تصحیح کر لیں۔ 

تازہ ترین