• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی لاک ڈاؤن کے باعث مساجد میں جانے اور با جماعت نماز ادا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ان ممالک میں کورونا وائرس کے لاکھوں متاثرین ہونے کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور ایمرجنسی میں سختی دیکھنے کو مل رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذرائع آمد و رفت کی بندش اور فلائٹس آپریشن کی منسوخی نے بھی زندگی کا پہیہ روکا نہیں تو آہستہ ضرور کر رکھا ہے ۔کورونا وائرس کی وباء سے پہلے اسپین کے مختلف شہروں جن میں بارسلونا ، میڈرڈ ، علی کانتے ، قرطبہ ، غرناطہ ،ویلنسیا ، لگرونیو ، طرطوسہ ، سارا غوثا ، کاستیون ، کاس پے ، یائیدا شامل ہیں ،میں رمضان المبارک میں نماز فجر سے لے کر نماز تراویح تک بڑے بڑے اجتماعات دیکھنے میں آتے تھے ،لیکن اب حالات یکسر بدل چکے ہیں ۔اب مسلمان کوئی بھی نماز مساجد میں با جماعت ادا نہیں کر سکتے کیونکہ ایمرجنسی اور لاک ڈاؤن کی سختی کے ساتھ ساتھ وہاں کے مقامی انتظامی امور انہیں ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں ، ویسے بھی آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے قوانین کا احترام بھی آپ پر لازم ہوتا ہے ، خیر اب حالات یہ ہیں کہ اسپین کے تمام شہروں میں مسلمان نماز اپنےگھروں میں ادا کررہے ہیں۔

حکومت اسپین نے لاک ڈاؤن اور ایمرجنسی کو مزید بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے مسلمان عید کا دن بھی لاک ڈاون میں ہی منائیں گے۔اس لئے نماز عید کے لئے خاص رعایت یا کھلے میدان میں فاصلے پر کھڑے ہو کر بھی نماز ادا کرنے جیسی سہولت نہیں مل سکے گی، لہذا نماز عید بھی مسلم کمیونٹی اپنے اپنے گھروں میں ادا کرے گی ۔اس میں ایسا بھی نہیں سوچا جا سکتا کہ یہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی ہے بلکہ اس وباء کا سامنا تو تمام مذاہب اور دنیا کی تمام اقوام کو ہے اس لئے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لئے تمام اقوام اور مذاہب یورپی ممالک کی حکومتوں اور انتظامیہ کا ساتھ دے رہی ہے تاکہ سب کورونا وائرس سے محفوظ رہ کر زندگی کی بازی جیت سکیں ۔ 

اس سے قبلرمضان المبار ک میں مقامی انتظامیہ مسلم کمیونٹی کو اسکولوں اور کالجز کے کھلے گراونڈز اور میدان مہیا کرتی تھی تاکہ وہاں نماز تراویح باجماعت پڑھی جا سکے ،یعنی یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہسپانوی حکومت نے مسلم کمیونٹی کے جذبات کا ہمیشہ خیال رکھا اور انہیں اپنے ملک میں کھلے عام عبادت کرنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ کھلی جگہ بھی مہیا کی اور ساتھ یہ بھی کہ جب تک عبادت ہوتی تو انتظامیہ کے اہلکار مسلم کمیونٹی کو کسی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کے پیش نہ آنے کے لئے وہاں پہرہ دیتے اور ان کی حفاظت کرتے تھے ۔

اسپین بھر میں ویسے تو عید کے بہت بڑے اجتماعات ہوتے تھے لیکن چونکہ پاکستانیوں کی زیادہ آبادی بارسلونا اور اس کے گرد و نواح میں مقیم ہے ،اس لئے صوبہ کاتالونیا کے دارالحکومت بارسلونا کی انتظامیہ عید کے بڑے اجتماعات کے لئے جگہ مہیا کرتی تھی ۔جہاں مسلم کمیونٹی نماز عید ادا کرتی اور وہیں نماز عید ادا کرنے کے بعد فطرانہ بھی دیا جاتا تھا جوا سپین کی کرنسی کے حوالے سے پانچ یورو بنتا تھا عموما ً وہ فطرانہ پاکستانی کمیونٹی مقامی مساجد کے چندہ باکس میں ڈال دیتی تاکہ وہ حق داروں تک پہنچ جائے اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمیونٹی کی کچھ تعداد وہ فطرانہ پاکستان روانہ کر دیتی تھی تاکہ ان کے محلے میں یا رشتہ داروں میں جو حق دار ہیں وہ فطرانہ حاصل کر لیں۔

اسپین میں مقیم مسلم کمیونٹی اس حوالے سے ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار ہے ، لوگ اپنے اپنے گھروں میں نمازیں پڑھ رہے ہیں اور سحر و افطار کر رہے ہیں ، ہسپانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہم جلد ہی ریسٹورنٹس کو خاص اصولوںکے تحت کھولنے کی اجازت دیں کہ جس میں گاہکوں کی تعداد اور خاص فاصلے پر بیٹھنے جیسی کنڈیشنز کا سامنا ہوگا ، حکومت کچھ ایسا بھی کر رہی ہے کہ اُن ریسٹورنٹس کو پہلے اجازت دی جائے جن کے باہر کھلی فضاء میں بیٹھنے کا اجازت نامہ ہو ،تاکہ لوگ ایک دوسرے سے فاصلے پر بیٹھ سکیں۔

تازہ ترین