رپورٹ: علی عمران سید..... ملک میں پیٹرول پمپس پر فیول کی دستیابی میں ایک بار پھر کمی ہورہی ہے لیکن اس دفعہ وجوہات کافی ہیں۔
گرتی ہوئی تیل کی قیمت کی وجہ سے کمپنیوں کو نقصان کا خدشہ رہا، لہٰذا غیر اعلامیہ طور پر کم ذخیرے کی کوشش ہوتی رہی۔ کورونا کے سبب ایک ماہ سے امپورٹ بندش نے بھی سپلائی چین توڑ دی ہے۔
سرحدیں بند ہونے کے سبب ایرانی ڈیزل کے بجائے ملکی ڈیزل کی کھپت بڑھی جسکا نہ کوئی منصوبہ بنایا گیا نہ ہی اسکی پیش بندی کی گئی، تیل کمپنیاں یہ بھی دعویٰ کر رہی ہیں کہ بھارت میں تیل کی قیمت پاکستان کے مقابلے دُگنا ہونے کے سبب مال وہاں اسمگل ہورہا ہے۔
اس بار تیل سپلائی کمی اور پمپس بند ہونے کی صرف یہی وجوہات نہیں بلکہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھاری نقصانات کے سبب ریفائنریز نے پیداوار محدود کر رکھی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی وارننگز نظر انداز کی جارہی ہیں اور کمپنیاں تیل ذخیرہ پورا رکھنے کی بنیادی شرط بھی پوری نہیں کر رہیں، جو کہ انکے کاروباری لائسنس کی بنیادی شرط ہے۔
قیمتیں بڑھتے وقت یہی کمپنیاں خوب مال بناتی ہیں، لیکن کم قیمت ہونے کے دوران لائسنس کی شرائط بھی پورا نہیں کرتیں اور وزارت یا اوگرا محض خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
تیل سپلائی کمی کی ایک اور وجہ عالمی مارکیٹ میں جہازوں کی دستیابی مشکل یا مہنگی ہوگئی ہے، لیکن سب وجوہات ایک طرف کیونکہ انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہے۔
تیل قلت کی ایک دلچسپ وجہ یہ ہے کہ وزارت پیٹرولیم نے جون کے لیے امپورٹ منصوبہ فائنل کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی، اور تقریباً مئی کا آدھا مہینہ گذرنے کے بعد جون امپورٹ فائنل ہوئی۔
اب یہ خبردار کر رہے ہیں کہ ملک میں حالیہ دنون میں تیل کی سپلائی کم رہنے کا سلسلہ اگلے ماہ بھی برقرار رہ سکتا ہے۔