ا س ہفتے میں بھارت میں وسیع پیمانے پر جاری عورتوں کے ریپ اور وہاں کے مردوں کی عورتوں کے بارے میں ذہنیت اور گنوار سوچ پر کالم لکھ رہی تھی مگر میری نظر پوسٹ عرب سپرنگ کے بارے میں ایک دو اورریسرچ پر پڑ گئی کیونکہ یہ ریسرچ میرے گزشتہ کالم ”عرب سپرنگ میں بھی عورتوں کے ختنے “ سے ملتی جلتی ہیں اس لئے اس ہفتے اسی پر قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ اب میں اس موضوع پر لکھتے ہوئے تھوڑا سا گھبرا بھی رہی ہوں کیونکہ میرے گز توں کے گزشتہ کالم کے بعد مجھے اس کالم کی تعریفوں کے علاوہ کچھ ایسی ای میل بھی ملی ہیں جن میں مجھے انتباہ کیا گیا ہے کہ جیسے گزشتہ کالم کی باتیں اسلام کے خلاف ہیں۔ میری امی اور ان کی سہیلیوں کا کہنا ہے کہ مسلان عور توں کے حقوق پر لکھتے ہوئے مجھے ایسی دھمکی آمیز باتوں کاعادی ہونا پڑے گا۔ انتہا پسند مسلمانوں کے فاشسٹ قسم کے اقدامات کے خلاف بات کروں تو کٹر مسلمان ٹائپ لوگ آنکھیں بند کرکے اسے اسلام پرحملہ قرار دے دیتے ہیں۔ ( سوری میں نے کٹر مسلمان کا لفظ استعمال کیا ہے میری نظر میں یہ لفظ اس لئے بہتر ہے کہ پڑھے لکھے انتہا پسند کو انتہا پسند کہو تو وہ برا مانتا ہے)مصر سمیت عرب سپرنگ والے ملکوں میں حکومتوں کی باگ ڈور مذہبی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ آگئی ہے۔ وہاں نئی نئی قانون سازی کے ذریعے مسلمان عورتوں کو پہلے سے حاصل قوانین کو ختم کیا جا رہا ہے جس پر وہ عورتیں جنہوں نے مردوں کے شانہ بشانہ چل کر عرب سپرنگ برپا کرنے میں رات دن کردار ادا کیا سر اپا احتجاج بن چکی ہیں۔ برطانیہ کی ایک مشہور خاتون صحافی ٹریسی میکوے ( نام انگلش میں لکھ دیں) مصر پہنچی ہوئی ہیں وہ لکھتی ہیں کہ وہی عورتیں جنہوں نے انقلاب لانے کے لئے 18 دن التحریر اسکوائر میں مردوں کے شانہ بشانہ گزارے وہ اب اپنے ختم ہوتے ہوئے حقوق کو بچانے کیلئے اکیلی ہی سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ انہوں نے کئی مظاہرے کئے ہیں جن میں مسلم برادر ہڈ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں کہا ہے کہ ہمارے حقوق چھیننے والو تم نہ تو اسلام ہو اور نہ ہی مصر ہو۔ تم عورتوں کی حفاظت کی بات کرتے ہو مگر یہ ریپ کے واقعات اور جنسی تشدد دن بدن کیسے بڑھ رہا ہے ایک ریسرچ کے مطابق مصر میں جنسی تشدد میں سپرنگ کے بعد 83 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مردانہ ذہنیت اس قدر پیچھے جا رہی ہے کہ گزشتہ دنوں جمعہ کے بعد جب عورتوں کا ایک گروپ مظاہرہ کر رہا تھا تو پولیس والوں نے ان کو دھتکارتے ہوئے کہا کہ یہاں سڑکوں پر کیا کر رہی ہو جاؤ گھروں میں بیٹھ کر اپنے گھر کا کام کرو جبکہ تحریر سکوائر کے 18 دنوں میں پڑھی لکھی، ان پڑھ، امیر غریب سب عورتوں نے سڑکوں پرمردوں کا ساتھ دیا اس وقت کسی نے عورتوں کو اس طرح کا کوئی طعنہ نہ مارا۔
پارلیمنٹ میں کسی بحث کے بغیر خواتین اراکین کا کوٹہ ختم کر دیا گیا ہے۔ عورتوں کے ختنوں کے خلاف عرب سپرنگ سے پہلے کا قانون موجود ہے مگر اس پر عمل کرانے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی بلکہ سننے میں آیا ہے کہ مسلم برادر ہڈ کی حکومت اس قانون کو ختم کرنے کی بھی ایک کوشش میں بھی مصروف تھی۔ اس قانون کی موجودگی میں بھی اس دور میں تقریبا 70 فیصد عورتوں کے ختنے ہو رہے ہیں۔ نئے آئین میں عورتوں کی شادی کی عمر کے قانون کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے۔ شادی کے لئے 18 سال کی عمر کو کم کرکے 13 سال کیا جارہا ہے جبکہ افواہ ہے کہ مسلم برادر ہڈ کے اکثر رہنما شادی کیلئے نو سال کی عمر کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ بعض لوگ اب بھی 13،14 سال کی بچیوں کی عمر کے بارے میں ڈاکٹروں سے غلط سرٹیفکیٹ لے کر ان سے شادیاں کر رہے ہیں۔تیل کی دولت سے مالا مال بعض عرب ممالک کے لوگ بچیوں سے شادی کرکے لے جاتے ہیں ۔ ایسی بچیوں کی بڑی تعداد موت کے منہ میں بھی جا رہی ہے۔ بہت ساری بچیوں کو شادی کے بعد جلد ہی طلاق ہو جاتی ہے۔ اوپر سے المیہ یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورتوں کو وہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا اس لئے طلاق یافتہ بچیاں گھروں میں قید ہو جاتی ہیں۔ عورتوں کی شادی کی عمر کو کم کرنے کی تبلیغ اور درس کے دوران وہاں کا عرب سپرنگ حکمران طبقہ یہ سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ بچی جب تک عورت نہیں بن جاتی اس سے جسمانی تعلق کس حد تک غیر انسانی فعل ہے جو اس کی جان لینے یا اس کی زندگی تباہ کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ وہاں چائلڈ ٹورسٹ شادیوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ایسے حالات صرف مصر میں ہی نہیں لیبیا میں بھی نئے آئین میں عورتوں کے مساوی حقوق کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق وہاں جنسی تشدد اور عورتوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اور واقعات بظاہر قانونی شکل میں نظر آرہے ہیں۔ یمن میں بھی چائلڈ میرج کو ابھی تک غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا۔ عورتوں کے دیگر حقوق کے مسائل کے حل کے لئے بھی اقدامات نظر نہیں آرہے۔ مراکش اور تنیسیا میں بھی عورتوں کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بھی بعض اسلامی جماعتیں خالص سیاسی جماعتوں کے ساتھااتحاد کے گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں۔ ان سے اتحاد کرنے والی جماعتیں اگر کامیاب ہو گئیں تو وہ ان مذہبی جماعتوں کی بلیک میلنگ سے شاید نہ بچ سکیں وہ بھی کل عرب سپرنگ سے متاثر ہو کرعورتوں کے خلاف قوانیں بنانے پر مجبور کر سکتی ہیں کیونکہ مجھ جیسی اکثر عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ سیاسی ملا خواہ کسی بھی ملک کے ہوں وہ اقتدار میں آکر عورتوں کے تحفظ، چادر اور چار دیواری کے نام پرعورتوں کو گھروں کے پنجروں میں بند کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کا کاروبار آزادی کی فضا میں نہیں چل سکتا۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ عورت کو بند کر لیا تو آدھی دنیا کو بند کر لیا۔ آدھی دنیا پنجرے میں بند کر لی تو باقی آدھی کو اپنی من مرضی سے ہانکنا آسان ہو جائے گا۔