شیراز علی
پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں تقریبا 62 فیصد لوگ کم عمر ہیں اور اس قوم کا ہر ایک شخص جو ہماری اجتماعی قوت کا حصہ ہے اپنے آپ میں بہت سی صلاحیتوں کا مجموعہ ہے اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر جہاں مواقع بہت ہیں وہیں آزمائشیں بھی بے انتہا ہیں۔نوجوان نسل کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتی ہے اس لیے ان کا وقت صرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے اہم ہوتا ہے اور اگر وہ اپنے اوقات کو ضائع کرتی ہے تو یہ پوری قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل اس وقت اپنے قیمتی اوقات کو بے دریغ ضائع کرنے میں مصروف ہے،گزشتہ چند برسوں میں ہمیں بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی ہوئی ملے گی۔
ہر بیروزگار شخص ہماری قوم کے لیے چیلنج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ذمہ داری ہم پرعائد ہوتی ہے کہ اپنے نوجوانوں کو ایسی صلاحیتوں سے آراستہ کریں جو آگے جا کر ان کے لئے روزگار کے اسباب پیدا کرسکیں۔آج ہمارے نوجوان ایک بہتر زندگی کے طلبگار ہیں اور اس کے لیےملازمت کے جو مواقع ان کو میسر آتے ہیں وہ جسمانی محنت و مشقت پر میسر ہوتے ہیں۔ اگر ہم سطح کو کھرچ کر دیکھیں تو پیشہ وارانہ درجہ بندی اور سماجی رویوں کی وجہ سے جسمانی مشقت والی ملازمت کو وہ مقام اورعزت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں۔ ہماری سماجی اور اقتصادی سوچ اور رویے جسمانی محنت کرنے والے شخص کو کم ادائیگی کا احساس دلاتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں کی کثیر تعداد کے لیے گریجویشن کی سطح تک معیاری تعلیم حاصل کرنا ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ اقتصادی ماہرین کی نظر میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام شہری کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں درس گاہوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، ہمارے خیر خواہ ان درس گاہوں کو نوجوانوں کے لیے ترقی کا دروازہ سمجھتے ہیں، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں مستقل اضافہ ہورہا ہے،لیکن اِس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہنرمند ہونا کبھی بھی ہمارے نوجوانوں کی پہلی ترجیح نہیں ہوتی اور وہ ’’وائٹ کالر‘‘ نوکریوں کے خواب ہی دیکھتے ہیں، جب ان نوجوانوں کو کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور قسمت ان پر سارے دروازے بند کردیتی ہے تب وہ سوچتے ہیں کہ کوئی ہنر سیکھ لیا جائے۔ پلمبر، موٹر مکینک، کوئلہ کھودنے والا یا پھر الیکٹریشن وہ تب بنتے ہیں جب زندگی سے انہیں کچھ اور حاصل نہیں ہوتا۔ بہت سے ایسے لوگ دیکھنے کو ملے ہیں جو پنکچر اور کارپینٹر کا کام کررہے ہیں، حالانکہ یہ وہ کام تھے جو کبھی بھی ان کی پہلی پسند نہیں ہوتا، اور اپنی زندگی کے لئے انہوں نے کچھ اور ہی سوچ رکھا ہوتا ہے۔
تاریخی طور پر آرٹ، ادب اور کسی بھی اس طرح کے کام کو ہنر پر ترجیح دی جاتی تھی اور یہ سوچ آج بھی قائم ہے۔ یہ چیلنج ہمارے معاشرے کے اندر ہے۔ ہمارے اندر ایک اندرونی مزاحمت ہے جو ہمیں ایسی نوکریاں کرنے سے روکتی ہے جس میں کوئی یونیفارم پہننا ضروری ہو۔ ہم سوٹ اور ٹائی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ کیا سوٹ اور ٹائی بھی ایک طرح کی وردی نہیں ہے؟ ہم ان نوکریوں کو زیادہ عزت دیتے ہیں جن میں جسمانی مشقت کے بجائے ذہنی کام زیادہ ہوتا ہے۔پاکستان کے معاشی فتنوں کو دیکھتے ہوئے میں، ہنر اور دستکاری کے شعبوں میں ترقی ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ ہنر کو سیکھنے کی لاگت کم کرنی چاہیئے۔
اس طرح کے کام کرنے میں فخر کا احساس ہمارے معاشرے میں بڑے پیمانے پر پیدا کیا جانا چاہیئے۔ ہم پاکستانی آج بھی اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ ہنرمندی اور جسمانی محنت کرنے میں زیادہ فخر محسوس کریں یا نہیں۔پاکستان کے نوجوان ممکنہ طور پر ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، بلا شبہ وزیراعظم عمران خان کا (کامیاب نوجوان ) پروگرام ایک اچھا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہےاگر اس کو صحیح طور پر استعمال نہیں کیا گیا تو یہی نوجوان خدا نخواستہ ، پاکستان کے اقتصادی و معاشی حالات کو مزید خراب کرسکتے ہیں۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان تمام نوجوانوں کو ہمارا قابض (کاروباری) طبقہ آگے بڑھنے دے گا ؟ اور اگر ان کو موقع مل بھی جائے تو کیا ان کو مارکیٹ میں وہ مقام اور جگہ مل جائے گی جس کے وہ خواہش مند ہیں؟