ہمارے معاشرے میں اگر کسی ذہنی بیمار یا کم از کم اسٹریس میں مبتلا فرد سےیہ کہا جائے کہ ’’آپ کسی نفسیاتی معالج یا ذہنی امراض کے ماہر سے مشورہ کرلیں ‘‘،تو عموماً ردِّعمل نہایت سخت آتا ہے کہ ’’کیا مَیںپاگل ہوں،جو ماہرِ نفسیات سے رجوع کروں؟‘‘ اصل میں زیادہ تر افراد کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوچُکی ہے کہ نفسیاتی معالج کا کام صرف پاگلوں کا علاج کرنا ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی سمجھ دار مریض ،ماہرِ نفسیات یا ماہر ِذہنی امراض سے رابطہ کرتا ہے اور اس کے دوستوں یا رشتے داروں کو پتا چل جائے ،تو اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے یا پھر اس پر طنز کے تیر برسا کر اس کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔ہم سب اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی نزلہ زکام، موسمی بخار وغیرہ سے متاثر ہوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح نفسیاتی مسائل سے بھی تقریباً سب ہی کا واسطہ پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ہوسکتا ہے کہ آپ کے دفتر میں آپ پر کام کا دباؤ بڑھ گیا ہو یا نیا باس بہت سخت مزاج ہو۔یہ بھی ہوسکتا ہے، گھر میں کوئی طویل عرصے سے بیمار ہو اور آپ اس کی مسلسل تیمار داری سے تھک گئے ہوں۔اسی طرح آپ نےکوئی کاروباری معاہدہ کیا ہو اور دوسری پارٹی آپ کی توقعات پر پوری نہ اُتری ہو یا کسی کام میں آپ کو نقصان ہوگیا ہو۔ایسی کئی وجوہ ہیں، جو زندگی کے مختلف مراحل میں پیش آتی ہیں،جن کی وجہ سے کوئی بھی فرد پریشان ہوسکتا ہے۔
ان پریشانیوں کا تعلق پروفیشنل زندگی سے بھی ہوسکتا ہے اور ذاتی زندگی سے بھی۔ بعض اوقات کسی فردکو پتا نہیں چلتا کہ وہ کب اور کیسے کسی پریشانی میں گرفتار ہوگیا۔ بس،اُسے اپنےدماغ پر بوجھ یا بے چینی سی محسوس ہوتی ہے۔بعد ازاں ،یہ کیفیات اُسے کسی پَل چین نہیں لینے دیتیں اور وہ یا تو اِدھر اُدھر بےمقصد گھومتا رہتا ہے یا پھر گھر ہی میں رہتا اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑدیتا ہے۔زندگی کے مسائل اور مشکلات معمول کی بات ہیں، جنہیں ہم روک نہیں سکتے، لیکن جب ہم مسائل کا شکارہوتے ہیں، توبعض افرادڈیپریشن، اینزائٹی، اسٹریس یا کسی اور ذہنی یا نفسیاتی مسئلے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جویقیناً’ ’پاگل پن‘‘ کی علامات نہیں ہوتیں، البتہ ان کا بروقت تدارک نہ کیا جائے ،تو آگے چل کر کئی طرح کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب یہ فیصلہ کیا جائے کہ اب نفسیاتی، جذباتی یا ذہنی حالت کے لیےمعالج سے مشورہ ضروری ہوچُکا ہے، لہٰذاذیل میں چند ایسی علامات کا ذکر کیا جارہا ہے، جن کی مدد سے یہ طے کرنے میںآسانی ہوگی کہ آپ کو یا آپ کے کسی عزیز کو کب ماہرِ نفسیات یا ماہر ِامراضِ ذہنی صحت سے لازماًمشورہ کرنا چاہیے۔
اسٹریس اور اینزائٹی:یہ علامت بہت عام ہے ،جس کی وجہ سے جلد از جلد معالج سے رابطہ ضروری ہوجاتاہے،کیوں کہ اگر ابتدا ہی میں اسٹریس اور اینزائٹی سے نمٹنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں ،توآگے چل کر یہ کسی سنگین ذہنی یا جذباتی بیماری کا سبب بن سکتی ہیں،لہٰذا اسٹریس اور اینزائٹی کی شدّت خواہ کم ہو یا درمیانی درجے کی ، از خود ٹھیک ہونے کے انتظار میںرہنے کی بجائے معالج سے رجوع کرنا ہی عقل مندی ہے۔
ڈیپریشن:معالج سے مشورے کے لیےدوسری عام علامت ڈیپریشن ہے،جس میں مبتلا فرداُداسی، یاسیت کا شکارہوجاتا ہے ،کسی کام میں دِل نہیں لگتا، بعض اوقات گھر کے کسی کمرے میں خود کوبندکرکے سب سے لاتعلقی اختیار کرلیتا ہے۔ بھوک، پیاس ختم ہوجاتی ہے یا پیاس زیادہ لگنے لگتی ہے۔ اگر کسی فرد میںاس طرح کی علامات ظاہرہوں ،تو فوراً ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔
فوبیا:ہت سی چیزیں ایسی ہیں ،جن سے خوف محسوس ہونا چاہیے۔ جیسے زیادہ بلندی کا خوف یا سامنے کتا یا سانپ آجائے،تو اس سے خوف زدہ ہونا چاہیے، کیوں کہ جب تک آپ ڈریں گے نہیں، اس سے حفاظت کی تدبیر کیوں کر کریں گے۔ لیکن بعض اوقات یہ خوف غیر حقیقی ہوتےہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کو چھپکلی سے خوف محسوس ہوتا ہے یا کئی افراد سمندر میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف بے بنیاد اور غیر حقیقی ہیں۔ اس صورت میں معالج سے رابطہ بہت ضروری ہے، کیوں کہ یہ خوف روزمرّہ زندگی میں بہت سے کاموں میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔عمومی طور پر ماہرِ نفسیات مائنڈ تھراپی تجویز کرتا ہے، جس میں اس قسم کے خوف کےلیے کئی مفید اور مؤثر طریقے دست یاب ہیں،جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
غیر صحت بخش عادات اور نشہ آور اشیاء کا استعمال:اگر کوئی فردغیر صحت بخش عادات میں مبتلا ہو،جیسےناخن کترنا یا پھر گٹکے، سگریٹ یا کسی نشہ آور شےکا استعمال کرنا، تو فوراً ماہرِ نفسیات سے رجوع کیا جائے۔ یہ علّتیں رفتہ رفتہ انسان کو اپنی گرفت میں لے کر زندہ لاش بنادیتی ہیں۔ غیر صحت بخش عادات اور نشہ آوراشیاء کی ایک طویل فہرست ہے۔ آپ اپنا جائزہ لیں کہ کہیںآپ کے اندرکوئی غیر صحت بخش عادت تو نہیں پائی جاتی۔ عموماً ہم نشہ آور اشیاء کے بارے میں تو جانتے ہیں، مگر مضر عادات سے ناواقف ہوتےہیں، اس لیے ان کا شعور ہونابھی بہت ضروری ہے۔
یادداشت اور ذہنی یک سوئی:یادداشت کے مسائل بھی بعض اوقات خاصی اذّیت کا باعث بن جاتے ہیں، کیوں کہ ان کی وجہ سے خاص طور پر کام متاثر ہوتا ہے۔ یادداشت اور ذہنی یک سوئی کے لیے ادویہ تو استعمال نہیں کی جاتیں، البتہ ماہر ِنفسیات اور مائنڈ تھراپسٹ سے مؤثر حل مل سکتا ہے۔
خانگی بالخصوص ازدواجی مسائل:موجودہ دَورمیں خانگی، خاندانی اور ازدواجی مسائل خاصےبڑھ چُکے ہیں۔ گھر میں سُکون نہ ملے، تو عمومی زندگی سے سُکون غارت ہوجاتا ہے۔کسی فردکو اگر رشتے داروں یا شریکِ حیات سے کوئی شکایت ہوتو یہ بات بھی اُسے ذہنی ، نفسیاتی مریض بناسکتی ہے۔ مشاہدے میںہےکہ بظاہر معمولی خانگی یا ازدواجی مسئلے سے پیدا ہونے والی پریشانی گھرانوں کی بربادی کا باعث بن جاتی ہے، لہٰذا اگر آپ کوبھی ایسا ہی کوئی چھوٹا یا بڑا مسئلہ درپیش ہو، تو اپنے تئیں اس سے نمٹنے کی بجائے ماہر اور مخلص کاؤنسلر، کوچ یا ماہر ِنفسیات سے فوری رابطہ کریں۔
یہ وہ چند علامات ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہےکہ ماہرِ ِنفسیات، ماہرِ ذہنی امراض اور کاؤنسلر سے مشاورت کے لیے آپ کا پاگل ہونا ضروری نہیں۔یاد رکھیے، روزمرّہ زندگی میں ایسے کئی مسائل جنم لیتےہیں ،جن کے درست اور مؤثر حل کے لیےان ماہرین کی پیشہ ورانہ اور ماہرانہ رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے، لہٰذا ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرنے میں ہچکچائیں نہیں کہ رابطہ کرنے کی صُورت میں آپ کے کئی مسائل باآسانی حل ہوسکتے ہیں۔
(مضمون نگار، فلاحی تنظیم ’’ٹرانس فارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی‘‘ کے بانی ہیں اور گزشتہ پچیس برس سے پاکستان، کینیڈا سمیت دیگر مُمالک میں خاص طور پر ذہنی صحت کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں)