• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سگریٹ ساز کمپنیوں نے بچوں کو نشانہ بناناشروع کردیا‘ڈبلیو ایچ او

پشاور (نیوز ڈیسک)عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک رپورٹ میںکہا ہے کہ سگریٹ ساز کمپنیاں جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنانے اور انہیںسگریٹ نوشی پر راغب کرنے کے لئے مہلک ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں، 13 سے 15 سال کی عمر کے 4 کروڑ 40 لاکھ بچے سگریٹ نوشی کررہے ہیں جبکہ 19 سال سے کم عمر افراد کو شامل کرنے سے یہ تعداد کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔تمام شعبے تمباکو اور اس سے متعلقہ صنعتوں کی مارکیٹنگ کی تدبیروں کو روکنے میں مدد کریں جو بچوں اور نوجوانوں کو اپنا شکار بناتے ہیں،کچھ ممالک میںآپ سپر مارکیٹوں میں تمباکو کی مصنوعات کو کینڈی کے قریب پاتے ہیں۔سکولوں میں جاکر چھوٹے بچوں کو ای سگریٹ کے عدم استعمال بارے تعلیم دی جائے، ترقی پذیر ممالک میں بچوں کو مفت سگریٹ دینے کی اطلاعات ہیں، ان بچوں اور نوعمروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔تمباکو نوشی کرنے والوں میں سے نوے فیصد اٹھارہ سال سے کم عمر افراد ہیں اور یہ مہلک عمل دانستہ طور پر کرایا جارہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے گزشتہ روز ایک کلاس روم ٹول کٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد 13 تا 17 سال کے نوجوانوں کو بتانا ہے کہ تمباکو کی صنعت مہلک مصنوعات استعمال کرنے کے لیے جوڑ توڑکی کوشش کرتی ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے تمباکو یونٹ کے کوآرڈی نیٹر ونایاک پرساد نے کہا کہ یہ صنعت مارکیٹنگ پر فی گھنٹہ 10 ملین ڈالر خرچ کر رہی ہے،وہ متبادل صارفین کی تلاش کے لیے یہ کام کر رہے ہیں جبکہ ہر سال آٹھ لاکھ قبل از وقت اموات تمباکو نوشی سے ہوتی ہیں۔39 ممالک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب 13 سے 15 سال کی عمر کے نو فیصد بچے ای سگریٹ استعمال کررہے ہیں جبکہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں اس کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے،جہاں تک یہ دعوے ہیں کہ ای سگریٹ محفوظ ہیں تو انھیں خبردار کرتے ہیں کہ تمباکو نوشی کے تمام طریقے سخت مضر صحت ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن کے دوران سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی تھی جس پر سگریٹ سازکمپنیاں اپنا لوگو ماسک پر ڈال رہی ہیں۔
تازہ ترین