جمیل احمد، ڈپٹی ڈائریکٹر اسپورٹس بلدیہ کراچی
کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس سے زندگی کے تمام شعبے بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں، وہیں کھیلوں کی دنیا بھی ساکت ہوگئی ، کہا جاتا تھا کہ جس جگہ کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں کے اسپتال ویران ہوتے ہیں مگر اس وباء کی وجہ سے یہ محاورا الٹ گیا ہے اور آج کل ہمارے اسپتال آباد ہیں اور کھیلوں کے میدان ویران ہیں جہاں پوری دنیا میں کھیلوں کے مقابلے بند ہیں، پاکستان میں بھی کھیلوں کی سرگرمیاں بری طرح سے متاثر ہوئی ہیں اس شعبے سے وابستہ ہزاروں افراد پریشانیوں کا شکار ہیں اور اُن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔
گوکہ چند فلاحی تنظیموں اور اسپورٹس کی تنظیموں نے عارضی طور پر ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام ضرور کیا ہے جس کے لئے وہ قابلِ تحسین ہیں مگر ہر گذرتا دن کھیلوں سے وابستہ افراد کی پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے پاکستان میں تمام کھیل تواتر کے ساتھ کھیلے جاتے ہیں مگر ان کھیلوں میں کرکٹ کا کھیل ایک منفرد مقام رکھتا ہے اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کا تذکرہ بعد میں کسی وقت کیا جائے گا اس وقت یہ بات بتانا مقصود ہے کہ دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ سے وابستہ افراد بھی بہت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
مگر سفید پوش ہونے کی وجہ سے وہ اپنی رودادِ الم ہر ایک کو سنا بھی نہیں سکتے ان میں امپائرز، اسکوررز ، گراونڈ ز مین نمایاں ہیں ان میں گراونڈ مین ماہانہ تنخواہ پر ملازمت کرتے ہیں جبکہ امپائرزز اور اسکورر روز کماؤ روز کھاؤ کی بنیاد پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تھے مگر تیسرا مہینہ چل رہا ہے، تاحال ان کے لئے کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آرہی یہاں یہ بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ پی سی بی کے امپائرز، اسکوررز اور میچ ریفریز کا گذرار اوقات تو بہرحال ہوہی رہا ہے مگر مقامی سطح پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے والے امپائرز، اسکوررز اور گراونڈ مین بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں،سمجھ سے بالاتر ہے کہ لاک ڈاؤن کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا یہاں سرکاری سطح پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہےکیوں کے پاکستان میں اسپورٹس بھی ایک صنعت کا درجہ رکھتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کو مل کر حکومت وقت سے مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ کھیلوں کی دنیا اس بحرانی کیفیت سے باہر آسکے جہاں ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے ایس او پیز بن سکتی ہیں وہیں کھیلوں کے انعقاد کے لئے بھی ایس او پیز بن سکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام کھیلوں کی فیڈریشنز کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اس کے لئے حکومت سے مذاکرات کرنا اشد ضروری ہیں کیونکہ جب ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ کرونا کی وبا کب تک رہے گی تو کھیلوں کی فیڈریشنز کو اس کے لئے کوئی نہ کوئی لائحہ عمل تو بنانا ہوگا تاکہ کھیلوں کی صنعت کو مکمل تباہی سے بچایا جاسکے۔
ویسے بھی ہمارے ملُک کے وزیر اعظم عمران خان کہہ چکُے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا ایک سال تک بھی رہ سکتی ہے تو ہمیں اس کرونا وائرس کی موجودگی میں ہی کھیلوں کی دنیا کو آباد رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑے گا تاکہ ہمارے ملُک کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے ہی محروم نہ رہ جائیں یہاں ایک بات بڑی غور طلب ہے کہ اب تک سرکاری سطح پر ہر شعبہ ہائے زندگی کا تذکرہ کیا گیا ہے سوائے کھیلوں کی سرگرمیوں کے اس سلسلے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ پورے ملُک کی اسپورٹس فیڈریشنز کے عہدیداران حکام بالا کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں تاکہ کھیلوں کے میدان آباد ہو سکیں۔