بلوچستان کی سیاست میں 1999سے پہلے تک یہاں کی قد آور سنجیدہ شخصیات کا ایک اہم کردار تھا پھر بدقسمتی سے بلوچستان میں ایک ایسی ہوا چلی، ایسا ماحول بنا کہ یہاں جو بڑے نامور لوگ تھے، قبائلی حیثیت میں ان کو یہاں کی سیاست سے آرام سے الگ کیا گیا اور آہستہ آہستہ یوں ایک ایسی مصیبت یا وبا آئی کہ بلوچستان کے اندر جو بڑے بڑے لوگ تھے، جن کی شخصیت سے تو اختلاف کیا جا سکتا تھا لیکن انکی بات کی اہمیت اور وزن سے کوئی بلوچی انکاری نہیں تھا انہوں نے بلوچستان کی سیاست یا فیصلہ سازی میں اپنا ختم ہوتا ہوا کردار دیکھ کر خود کو اِس سے الگ کر لیا ہے جبکہ انکی جگہ یونین کونسل کے کونسلر کی استعداد نہ رکھنے والوں کو دے دی گئی ہے۔ اُستاد محترم سلیم صافی کے اس ٹویٹ نے کہ ’جاوید جبار ذاتی دوست، انتہائی محنتی اور قابل انسان ہیں لیکن این ایف سی میں انہیں بلوچستان کا نمائندہ بنانے کا کوئی جواز نہیں بنتا‘ نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ وزیراعلیٰ نے جاوید جبار کو این ایف سی میں بلوچستان کا نمائندہ بنایا۔ این ایف سی ایوارڈ بلوچستان میں بسنے والوں کے لئے موت، زندگی اور انکے مستقبل کا فیصلہ ہے جس کا اختیار بلوچستان کے محل وقوع سے بےخبر شخص کو نہیں دیا جا سکتا ہے۔ جاوید جبار نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے نمائندے کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا ہےاب بہتر یہی ہو گا کہ اُنکی جگہ بلوچستان سے ہے کسی قد آور شخصیت کو این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا نمائندہ بنایا جائے۔ یہ بات سمجھنے کا نہیں بلکہ اپنا مسئلہ اور بات سمجھانے کا فورم ہے جس پر جہاں ایسے شخص کی ضرورت ہے کہ جو صوبے کے تمام تر وسائل و مسائل کو انگلیوں پر یاد رکھتا ہو لیکن جن کو معیشت اور بلوچستان کے زمینی حقائق کے بارے میں معلوم نہ ہو وہ کیا کر سکیں گے۔ اس نامزدگی سے ابھی سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ بلوچستان کو فائدہ دینا ہی نہیں ہے۔ بدامنی سے تنقید کی زد میں رہنے والے نواب اسلم رئیسانی نے بلوچستان کا مقدمہ اس فورم پر ایک حقیقی حکمراں کی طرح لڑا جس کو صوبے کی تاریخ یاد رکھے گی۔ این ایف سی ایوارڈ میں ان کے دور میں صوبے کا حصہ 5سے 9فیصد بنا اور صوبائی حکومت کی معاشی حالت بدلنے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ نواب اسلم رئیسانی نے جس دن حکومت چھوڑی تو صوبائی حکومت جو این ایف سی ایوارڈ سے پہلے اپنے ملازمین کی تنخواہیں وفاق سے لے کر یا قرضوں سے ادا کر رہی تھی، کے اکاؤنٹ میں سرپلس 38ارب روپے کی رقم موجود تھی۔ پہلے تنخواہوں کی مد میں اوور ڈرافٹ کی صورت میں 18سے 20ارب روپے بینکوں کی ادائیگی بلوچستان حکومت کے ذمہ واجب الادا تھے، جس کا وہ سالانہ کروڑوں روپے سود ادا کرتی تھی۔ این ایف سی ایوارڈ کے پہلے سال صوبہ اس پوزیشن پر آگیا تھا کہ 8ارب روپے مختلف بینکوں میں انویسٹ کر دیے۔ این ایف سی ایوارڈ پورے صوبے کا مسئلہ ہے جس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرنا لازمی تھی۔ بلوچستان جو کہ پاکستان کا ایک تاریخی صوبہ ہے، اس کی جغرافیائی سرحدیں، اس کا کوسٹل ایریا، بلوچستان کی اہمیت میں اور اضافہ کرتے ہیں اور بلوچستان ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں مختلف کشمکش سے گزرا ہے، اگر تاریخ دیکھ کر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان کے آس پاس پھر اسٹرٹیجک لحاظ سے تاریخی فیصلہ سازیاں ہورہی ہیں۔ افغانستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے، ایران میں بھی اسی قسم کا ماحول ہے اور بلوچستان کے وسائل کے حوالے سے بھی فیصلے ہونے والے ہیں، چاہے وہ ریکوڈک ہو یاسیندک ہو یا بلوچستان کے دوسرے قدرتی وسائل۔ یوں بلوچستان پھر ایک تاریخی موڑ پر ہے جہاں اس کے بڑے اور قد آور شخصیات جنہوں نے اس کی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرنا ہے، ان کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وہ فیصلے ہوں گے جو آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ جو 1952میں فیصلے ہوئے تھے، اب تک بلوچستان کے لوگ اس پر شور کررہے ہیں۔ آج پھر فیصلوں کا وقت ہے اور پھر جب این ایف سی جیسا فورم ہو اور اس میں بھی اتنی غیرسنجیدگی ہو تو پھر بلوچستان کے لوگ شاید کئی برسوں تک اسی جدوجہد میں لگے رہیں گے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اگر اس این ایف سی میں صوبے سے تھوڑی سی بھی زیادتی ہوئی تو اِس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)