• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
میں اکثر اپنے غمگسار دوستوں کو بتایا کرتا ہوں کہ برطانیہ میں اپنی زندگی کے شب و روز پر جب بھی نظر ڈالتا ہوں تو نوے کی دہائی کے وہ چند ماہ قیمتی اثاثہ دکھائی دیتے ہیں جب بسلسلہ روزگار لوٹن سے لندن تقریباً روزانہ ٹرین کے ذریعے سفر کرتا تھا اور آتے جاتے لندن کی رونقوں سے دل ہش ہش کر اٹھتا، لندن کی مدھر اور مست فضاوں سے طبیعت عشاش بشاش ہوجاتی۔ پھر اکثر ویک اینڈز پر اور مختلف تعطیلات کے دوران یہ معمول رہا کہ لندن کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو دیکھا جائے، ملکہ برطانیہ کی رہائش گاہ بکنگھم پیلس باہر اکثر سیاحوں کا مجمع لگا رہتا تھا انہی سیاحوں کے دم سے بے شمار لوگوں کی روٹی روزی کا بندوبست ہوتا تھا۔ اس عرصے میں ہوائی سفر اور ٹرین دونوں ذرائع مواصلات بری طرح متاثر ہوئے ہیں اس لیے سیاحت اور اس سے متعلق کاروبار زندگی ساوتھ کینزیگٹن، ایگزیبیشن روڈ پر سائنس میوزیم جہاں پر وزیٹرز دنیا بھر کی سائنسی ایجادات پر مبنی حیرت انگیز کہانیوں اور ریسرچ دیکھ کر انسپائر ہوتے تھے کرامویل روڈ پرنیچرل ہسٹری میوزیم ڈائناسار اور زمین پر کیا کیا بیش قیمت خزانے ہیں یہ جاننے کے لیے کئی مرتبہ فیملی سمیت وزٹ کیے۔ پھر برٹش یوسٹن روڈ پر برٹش لائبریری جہاں پر ایک سو ستر ملین سے زائد Collections ہیں، جس میں ہر عمر کی تحریری سویلائزیشن کو جمع کر دیا گیا ہے۔ یہ برطانیہ کی قومی لائبریری ہے اور جو شخص یہ کہے کہ وہ برطانیہ کا باشندہ ہے مگر اس نے اگر یہ لائبریری نہیں دیکھی تو گویا وہ اس نے جزیرے سے متعلق ہی نہیں۔یہ ڈھائی ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے دنیا بھر کی ایک اہم ترین لائبریری شمار کی جاتی ہے اور یہ برطانوی پارلیمنٹ کے اس وژن کا نتیجہ ہے کہ جو یہ چاہتی تھی کہ برطانیہ میں مرکزی سطح پر انفارمیشن ہب ہو جہاں سے سائنسی اور ٹیکنالوجی ریسرچ کے علاوہ بزنسیز، آرٹ اور ہیو مینٹیز کے مختلف شعبوں کی تحقیق میں بھرپور مدد مل سکے، اور ٹریفالگر سکوائر پر واقع برطانیہ کی نیشنل آرٹ گیلری تو دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں میں بہت مقبول تھی۔ ہر روز ہزاروں مسافر لندن کے ملینیئم برج سے گزرتے تھے۔ لندن کا ویسٹ اینڈ، یہاں پر زندگی کی گہماگہمی دیکھنے کے لائق ہوتی تھی، پکاڈلی میں واٹر سٹون یورپ کے سب سے بڑے بک سٹور میں کتابوں کی براوزنگ اور وہ بھی وہیں پر بیٹھ کر اپنے فیورٹ لے ٹے کے ساتھ مگر اب کورونا وائرس کی وبا کے باعث گزشتہ جند ہفتے لندن گویا اجڑ کر رہ گیا ویسٹ اینڈ تک سنسان اور ویران پڑا ہے۔ کورونا سے لندن کی رونقیں ماند پڑ گئی
ہیں، کاش لندن کی رونقیں پھر بحال ہو جائیں، 16 مارچ کے بعد گویا کہ ایک جہاں رک گیا ہے تاہم اب امید ہے کہ شاید زندگی بتدریج معمول پر آجائے۔ لندن دنیا کا فنانشل ہب financial hub بھی ہے یہاں ملک کا مرکزی بینک، بینک آف انگلینڈ، لندن اسٹاک ایکس چینج اور دیگر بہت سے مالیاتی اداروں کے دفاتر بھی قائم ہیں، متعدد دفاتر لندن کے مرکزی حصے سکوئرمیل میں واقع ہیں۔ جہاں پر کام کرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ سوا پانچ لاکھ ہے۔لندن خالصتا" ایک میجک یا عجائب گھر ہے، کئی رنگا رنگ ثقافتوں کا حسین امتزاج ہے، مختلف تہذیبوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، دنیا کا بہت بڑا لٹریری ہب ہے، چارلس ڈکنز، ورجینیا وولف، جارج اورویل اور آسکر وائیلڈ کا لندن کون کون سے نام لوں _۔لندن میں ہر ایک کی دلچسپی کا سامان موجود ہے، چاہیےاپ کتابوں کے رسیا ہیں، فلم بین ہیں، فنون لطیفہ سے دلچسپی ہے، تاریخ، سائنس یا سیاست لندن کو اپنا ہمدم پائیں گے۔کسی نے انگریزی میں کیا ہی خوبصورت لکھا تھا جس کا اپنے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ لندن دنیا کا صف اول کا سیاحتی مرکز ہے جہاں پر پر سال 20 ملین سے زیادہ سیاح سیر سپاٹے کے لیے آتے ہیں۔برطانوی کیپیٹل سٹی آرٹ اور انٹرٹینمٹ کا گھر ہے یہاں کے تھیٹر ہمہ وقت بزی، مصروف رہتے ہیں لندن اس خطہ زمین پر دنیا کی بہترین کلچرل کا امتزاج پیش کرتا ہے، رائل پیلسیز Royal places سے لے کر پیپلز پارلیمنٹ تک میوزیم، گرجا گھراور دریائے ٹیمز یہ سب ہر ایک اتنا دلفریب منظر پیش کرتا ہے کہ انسان دل تھام کر رہ جاتا ہے۔برطانیہ کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق لندن رومن کے 43 اے ڈی میں برطانیہ پر حملے کے فوراً بعد یہ شہر اسٹیبلش کیا گیا، 1381 کے Peasantsʼ Revolt 1553کے دی ٹرائل آف لیڈی جین گرے ایٹ گلڈ ہال اور مختلف تاریخی واقعات کا یہ شہر امین ہے، جبکہ آج کے لندن میں تین طرح کے گروپس آباد ہیں۔ ایک کیٹیگری میں وہ طبقہ شامل ہے ہیں جو بہتر معاشی زندگی کے خواب لیے دنیا کے مختلف حصوں سے لندن آکر رہائش پذیر ہونے، ان کی زندگی کا مقصد کام ہے ہے اور عام طرح کی ملازمت کے لئے ہر وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ دوسرا گروہ مقامی میزبان سفید فام باشندوں کا ہے جو لندن کی لائف سے انجوائے کرتے ہیں اور ایک گروہ ان بے گھر افراد کا ہوتا ہے جن کے پاس رہنے کے لیے ٹھکانہ نہیں اور ان کے لیے تفریح ایک خواب ہے، ماضی میں لندن جو مختلف برادریوں کا حسین امتزاج تھا سنہ 2016میں بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد کے مہینوں میں تارکین وطن سے ایک مختلف سلوک بھی بعض حصوں میں رپورٹ کیا جاتا رہا ہے۔ عام لوگوں کو امید ہے لندن کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہوں گی _ چاہےکورونا کا بحران ہو یا بریگزٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال، لندن ایک بار پھر اپنی روایات کی پاسداری کر پائے گا _ ۔
تازہ ترین