صوبے بھر میں سیاسی، معاشی، سماجی سرگرمیاں گرچہ ماند ہیں تاہم سیاست دان کسی بھی ایشو پر سیاست کرنے سے نہیں چوکتے۔ سندھ میں پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان تند و تیز جملوں اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ مہینے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی فردوس شمیم نقوی نے پی پی پی کی حکومت کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ میں وزیراعظم عمران خان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کب تک سندھ حکومت کو موقع دیں گے۔ فردوس شمیم نقوی اس سے قبل سندھ میں گورنر راج لگانے کا بھی مطالبہ کرچکے ہیں اور اس بار پھر انہوں نے وفاق کو سندھ میں پی پی پی حکومت کے خلاف ایکشن لینے کو کہا ہے۔
سندھ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک دوسرے پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ نے بھی پی پی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کو 12؍برسوں میں 15؍ہزار ارب روپے ملے تاہم انہوں نے ایک بھی ریسیکو ادارہ نہیں بنایا۔ پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی بلال وقار نے چینی اسکینڈل کو زیربحث لاتے ہوئے کہا کہ پی پی پی نے اپنے دور میں کمیشن کیوں نہیں بنایا۔ پی پی پی دور میں چینی سو روپے کلو تھی۔ سندھ میں پی پی پی نے اپنے دور میں اومنی گروپ کو نوازا۔ پی پی پی چینی انکوائری رپورٹ کو مسترد کرنے کے بجائے کمیشن کے سامنے پیش ہو۔
سندھ میں چینی پر سبسڈی سے متعلق سندھ بینک کا آڈٹ بھی ضروری ہے۔ فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ سندھ میں 34؍شوگر ملیں ہیں جن میں سے 18؍شوگر ملیں زرداری صاحب اور ان کے دوستوں کی ہیں۔ ہم وزیراعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ کیلئے شوگر انکوائری کمیٹی بنائی جائے۔ اومنی گروپ کے ذریعے 53؍بلین قرضہ لیا گیا، سندھ کا ہر ادارہ تباہ ہے، وزیراعظم صوبے میں معاشی ایمرجنسی نافذ کریں۔ پی پی حکومت کی ناکامیابیوں کی طویل داستان ہے۔
پی پی پی کے رہنمائوں سعید غنی، ناصر حسین شاہ اور مرتضیٰ وہاب نے بھی پی ٹی آئی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے تین سو ارب روپے کا فراڈ کیا۔ تین سو ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکالنے کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ نیب، نیازی گٹھ جوڑ کرپشن کے خاتمے کیلئے نہیں بلکہ اپوزیشن کے خاتمے کیلئے ہے۔ سلیکٹڈ حکومت نے قرض لئے،پی پی پی نے پانچ سالہ دور میں نہیں لئے۔
ایک جانب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سندھ میں تند و تیز حملوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف صوبہ گوں ناگوں مسائل کا شکار ہے۔ سندھ میں ایک جانب کورنا تیزی سے پھیل رہا ہے، اموات اور مریضوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر کے اسپتال کورونا کے مریضوں سے بھر چکے ہیں، دوسری طرف جماعت اسلامی، پاک سرزمین پارٹی نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت پر آواز اٹھائی ہے۔ ادھر عید کے بعد کورونا وائرس صوبے میں انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر مظفر مرزا نے کورونا وائرس کے پھیلائو کے خدشے کے پیش نظر لاک ڈائون کو سخت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی کورونا وائرس کے پھیلائو پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس کیلئے ارکان اسمبلی کے کورونا وائرس ٹیسٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک 11؍ارکان کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس کیلئے ارکان اسمبلی کا کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دیا ہے۔ تادم تحریر 168؍ارکان میں سے تقریباً نصف ارکان اسمبلی کے کورونا ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔ حکومت کا اب بھی یہ موقف ہے کہ مریضوں اور اموات کی جتنی توقع کی جارہی تھی، وہ اب بھی کم ہے۔ وفاقی حکومت جو پہلے روز سے ہی لاک ڈائون کی مخالف ہے، خراب ہوتی ہوئی صورتحال میں بھی سخت لاک ڈائون کے حق میں نہیں۔ پی ٹی آئی کراچی کے صدر اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے بھی کہا ہے کہ سندھ حکومت کو لاک ڈائون نہیں کرنے دیں گے جبکہ سخت لاک ڈاؤن کے موقف سے ہٹنے اور اسمارٹ لاک ڈائون لگانے پر سبب ہی کورونا وائرس کے متاثرین میں اضافہ نہیں ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی سندھ کے رہنمائوں نے کورونا سے متعلق اعدادوشمار کو فراڈ قرار دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ جب ہم اسپتال میں جاتے ہیں تو ہمیں کورونا کہیں نظر نہیں آتا، حکومت سندھ جھوٹے اعداد و شمار پیش کررہی ہے، مراد علی شاہ کو کورونا سے بہت محبت ہے۔ پی ٹی آئی سمیت جماعت اسلامی، جے یو آئی، اے این پی، پاک سرزمین پارٹی، ایم کیوایم، جے ڈی اے سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے تاجر برادری سے کہا تھا کہ وہ حکومت سندھ کے لاک ڈائون کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔ لاک ڈائون کی مسلسل مخالفت کی وجہ سے پی پی پی حکومت دبائو میں آئی اور انہوں نے لاک ڈائون میں نرمی کی جس کے سبب سندھ میں کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلا۔
ان حالات میں بھی ٹرانسپورٹر حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ٹرانسپورٹ سڑکوں پر لائیں گے جبکہ تاجر برادری لاک ڈاون میں مذید نرمی کرنا کا مظالبہ کر رہی ہےاور شام پانچ بجے کے بعد بھی کاروبار کرنے کی اجازت مانگ رہی ہے جبکہ ملک بھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تادم تحریر 77؍ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ 16؍سو افراد اس وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ حکومت گوں مگوں کی کیفیت میں ہے کہ وہ عوام کی زندگیاں بثائے یاپھر معیشت، غربت اور بے روزگاری کو روکےکہا جا رہا ہے کہ لاک ڈاون میں مذید نر،ی کے بعد تمام تر کامیابیوں اور ناکامیوں سمیت انسانی جانوں کے زیاں کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہو گی۔