افغان طالبان کے حوالے سے ایک عمومی تاثر ہے کہ ان میں سیاسی سوچ اور پختگی کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف اکثر اوقات اپنا نقصان کرتے رہے ہیں بلکہ ان کے اس رویے سے افغان عوام اور خطہ بھی وقتاً فوقتاً خطرات کا شکار ہوتا رہا ہے۔
افغان طالبان کی دنیا بھر میں ہمیشہ سے پہچان ایک عسکری قوت کے طور پر رہی ہے جبکہ وہ اس جنگ کے میدان میں اپنے مقامی اور غیر ملکی حریفوں سے کسی نہ کسی صورت میں اپنی یہ طاقت منواتے بھی رہے ہیں۔ لیکن پہلے ذکر کیے گئے عمومی تاثر کے عین مطابق اپنی سیاسی ناپختگی کے باعث اگر انہیں بظاہر کامیابی کا کوئی بڑا موقع ہاتھ آیا بھی ہے تو وہ اس سے بھرپور سیاسی فائدہ لینے میں ناکام رہے ہیں۔
افغانستان میں سب سے پہلے طالبان کا وجود پاکستان کے جنوبی صوبہ بلوچستان سے متصل افغان صوبہ قندھار میں اس وقت ہوا جب کچھ افغان اس وقت اقتدار پر قابض نام نہاد وار لارڈز کے ظلم و ستم خلاف ملا محمد عمر کے پاس مدد کے لیے پہنچے۔ ملا عمر اس وقت ایک مقامی مدرسے میں عام استاد تھے۔ یوں اکتوبر 1994ء میں قندھار سے طالبان کی عسکری کارروائیوں کا آغاز ہوا اور پھر چند ہی مہینوں کے دوران وہ آدھے سے زیادہ افغانستان پر قابض ہو گئے۔ اس تحریک کی برق رفتاری کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996ء میں اس نے دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھالا اور پھر مختصر عرصہ میں تاجک اور ازبک قومیتوں کے اکثریتی چند شمالی صوبوں کے علاوہ افغانستان بھر پر ان کا راج قائم ہو گیا۔ طالبان نے اس دوران تقریباً پانچ سال تک افغانستان پر حکومت کی جس سے انہیں کچھ امور سلطنت کا تجربہ بھی حاصل ہوا لیکن شاید مختلف امور پر سخت گیر موقف رکھنے کے باعث وہ اپنی حکومت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے میں ناکام رہے۔ سخت گیر موقف کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہے اور پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی بمشکل ان کی حکومت کو باضابطہ تسلیم کرکے ان سے سفارتی تعلقات استوار کیے رہے۔
گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ٹوئنز ٹاورز پر حملہ ہوا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ امریکہ نے ان حملوں کا براہ راست ذمہ دار اس وقت افغانستان میں سرگرم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قرار دیا۔ افغان طالبان سے کہا گیا کہ وہ اسامہ بن لادن کو ملک بدر کر دیں یا ان پر مقدمہ چلانے کے لیے انہیں امریکہ کے حوالے کیا جائے لیکن شاید طالبان اس اہم اور حساس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وہ اہم موڑ تھا جب پہلی مرتبہ طالبان میں سیاسی سوچ اور بصیرت کی کمی دکھائی دی۔ طالبان نے اس وقت ایک غیر افغان کی خاطر نہ صرف اپنی حکومت داؤ پر لگائی بلکہ اس معاملے کا حل دوسرے ممالک کی معاونت یا ثالثی کے ذریعے سے نکالنے میں بھی انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی اور نتیجتاً اپنی حکومت گنوا بیٹھے۔
پھر جب امریکی حملے کے نتیجے میں کابل سے طالبان کا سقوط ہو رہا تھا تو اس وقت بھی اگر وہ مزاحمت نہ کرتے اور مقامی طور پر معاہدہ کر لیتے تو اپنے جنگجوؤں کے بڑے پیمانے پر قتل عام روک سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جنگ کو ترجیح دی جس سے نہ صرف ان کے سینکڑوں جنگجو مارے گئے بلکہ ان کے درجنوں اہم کمانڈر امریکہ کی طرف سے گرفتاری کے بعد گوانتانامو جیل بھیج دیے گئے جہاں وہ کئی سالوں تک اذیتیں برداشت کرتے رہے۔
فروری میں ہونے والا دوحا امن معاہدہ افغانستان کی حالیہ تاریخ میں ایک اہم پیش رفت کہا جاتا ہے۔ طالبان کا بھی ابتدا ہی سے یہ اولین مطالبہ رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور افغان عوام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ تاہم اب جبکہ امریکہ افغانستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنے پر راضی ہو گیا ہے تو یہاں ضرورت اس امر کی تھی کہ طالبان اس اہم موقع کو غنیمت جان کر ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر امن کے عمل کو آگے بڑھاتے لیکن حسب معمول وہ یہاں پھر اپنی پرانی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں۔ قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر وہ پھر اسی روایتی تشدد کی پالیسی پر اتر آئے جس سے نہ صرف یہ معاملہ بگڑ رہا ہے بلکہ حالیہ بدامنی کے واقعات نے افغانستان میں پھر سے نوے کے عشرے کی بدترین خانہ جنگی کی یاد تازہ کر دی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے تین ماہ میں افغانستان میں تین ہزار کے لگ بھگ چھوٹے بڑے حملوں میں سات سو سے زیادہ عام شہری مارے گئے ہیں۔ طالبان تحریک پر گہری نظر رکھنے والے سینئر افغان صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے ’افغان طالبان میں سیاسی اعتماد کی کمی ہے، وہ خود کو صرف جنگی مشین سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ شاید بندوق رکھنے کی صورت میں وہ مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائیں گے‘۔ اگرچہ طالبان مذاکراتی ٹیم میں منجھے ہوئے سیاست کار شامل ہیں لیکن بظاہر لگتا ہے کہ تحریک پر عمومی طور پر عسکری سوچ کے حامل افراد کا اثر زیادہ ہے۔ لیکن ان تمام تر خامیوں کے ساتھ ساتھ طالبان میں کچھ مثبت تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ سال کی طویل مزاحمت کے دوران طالبان نے پہلی مرتبہ اپنے سخت گیر موقف سے پہلو تہی کرتے ہوئے القاعدہ سمیت تمام مسلح تنظیموں سے قطع تعلق کرنے کا اعلان کیا ہے جسے بلاشبہ ایک اہم پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔ ان کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ خواتین کے متعلق بھی ان کے موقف میں واضح تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے باپردہ ہو کر عورتوں کو کام کرنے اور تعلیم کی اجازت دینے کی ہامی بھری ہے۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کی رہائی اور تشدد میں کمی لانے کے معاملے پر بدستور ڈیڈلاک کی صورتحال برقرار ہے۔ اگر دوحا امن معاہدے کو بین الافغان مذاکرات میں تبدیل نہیں کیا گیا تو افغانستان پھر سے تباہ کن خانہ جنگی کی جانب بڑھ سکتا ہے لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ طالبان کو ہم وطن افغانوں کی خاطر سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرکے اپنے موقف میں معمولی سی لچک دکھانی چاہیے تاکہ جنگ کا ماحول بھائی چارے میں تبدیل ہو سکے۔