• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں کورونا کے اعداد و شمار ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہولناک تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ لامتناہی لاک ڈاؤن کے محال ہونے پر اب پاکستان ہی نہیں دنیا کے تمام ملک متفق ہیں۔ ماہرین کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ یہ وائرس کم و بیش دنیا کے ہر شخص کو کسی نہ کسی حد تک متاثر کرے گا لہٰذا وائرس کے پھیلاؤ کو ایک حد میں رکھنے کی خاطر احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے زندگی کی سرگرمیاں جاری رکھی جانی چاہئیں۔ وزیراعظم عمران خان شروع سے اسی موقف کے علم بردار ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان میں بھی ان ہی حقائق کی بنا پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم اس کے بعد سے وبا کے پھیلاؤ میں نمایاں تیزی آئی ہے جس کا سبب واضح طور پر شہریوں کا غیر محتاط رویہ ہے اور اس میں مثبت تبدیلی نہ آئی تو نتائج اندازوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کے معاملے میں ہر شہری کی اپنی ذمہ داری کے حوالے سے پورے ملک کی سطح پر لوگوں میں شعور اور احساس پیدا کرنے کی خاطر دس لاکھ رضاکار نوجوانوں پر مشتمل خاص طور پر اسی مقصد کے لیے بنائی گئی ٹائیگر فورس کے زیادہ مؤثر استعمال کے عزم کا اظہار کیا ہے جو یقینی طور پر وقت کی ضرورت ہے۔ ٹائیگر فورس کے رضاکاروں سے گزشتہ روز کیے گئے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرانا ٹائیگر فورس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، رمضان میں یہ نوجوان ملک بھر میں نمازیوں سے احتیاطی تدابیر پر عمل کرا کے وائرس کے مساجد سے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں اور اب پورے ملک میں نہ صرف کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر سے متعلق عوام کو آگہی فراہم کرنے کا کام اس تنظیم سے لیا جائے گا بلکہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام، ٹڈی دل کے خاتمے اور کلین اینڈ گرین پاکستان مہم میں بھی یہ فورس اپنا کردار ادا کرے گی۔ اگر کورونا سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کو سیل کرنا پڑا تو مقامی آبادی کو خوراک اور دیگر ضروریات کی فراہمی کا کام بھی ان رضاکاروں سے لیا جائے گا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ ٹائیگر فورس کے ارکان کو باقاعدہ کارڈجاری کیے جائیں گے تاکہ ملک بھر میں اپنے فرائض انجام دینے کے دوران وہ عوام میں اپنا تعارف کرا سکیں۔ دس لاکھ رضاکار نوجوانوں کی یہ تنظیم اپنے فرائض درست طور پر انجام دے سکے تو اس کے نتائج یقیناً بہت مفید ہوں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ارکان کو ان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی مکمل تربیت دی جائے نیز اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اپنی حیثیت اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے باز رہیں گے اور دنیاوی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنی ذمہ داریاں اللہ کی رضا کی خاطر خدمت خلق کے جذبے کے تحت انجام دیں گے۔ اس کے لیے جس گہری اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے، اس کا اطمینان بخش اہتمام اس تجربے کی کامیابی کے لیے لازمی ہے۔ امید ہے کہ معاملے کا یہ پہلو وزیراعظم کے پیش نظر ہوگا اور اس کے تقاضے پورے کرنے کا بندوبست بھی کیا گیا ہوگا۔ وزیراعظم نے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی کچھ تفصیلات بھی بیان کیں جبکہ گزشتہ روز ہی سینیٹ میں ایک سوال کے جواب میں وزارتِ خزانہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ عالمی وبا کے نتیجے میں ملک میں صرف پہلے مرحلے میں تیس لاکھ ملازمتیں ختم ہونے والی ہیں اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ پچیس کھرب روپے کا ہے۔ بیروزگاری کے اس طوفان اور معاشی ابتری سے کیسے نمٹا جائے؟ بلاشبہ یہ آج ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے جبکہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع تر قومی مفاہمت، یکجہتی اور مشاورت ناگزیر ہے اور اس کا بندوبست حکومت وقت کی اوّلین ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین