کہتے ہیں ، صحت ایک عظیم نعمت،بہت بڑی دولت ہے کہ اگر آپ صحت مند نہیں، تو خواہ آپ کے پاس دولت کے انبار ہوں یا دُنیا جہاں کی آسایشیں موجودہوں، سب کچھ بے کار ہے۔جسمانی صحت متاثر ہونے کے بے شمار عوامل ہیں کہ کبھی کوئی مرض وجہ بن جاتا ہے، تو کبھی کوئی لَت جسمانی ہی نہیں ،ذہنی صحت بھی متاثر کردیتی ہے ۔ ان مضرِصحت علّتوں میں ایک لَت تمباکونوشی بھی ہے، جو صرف صحت ہی متاثر نہیں کرتی، بلکہ قبل ازوقت موت کا بھی سبب بن سکتی ہے، خاص طور پر اِس وقت جب دُنیا بَھر میں کووڈ-19نامی وائرس وبا کی صُورت پھیلا ہوا ہے۔
یہ بات بھی مدِّنظر رہےکہ تمباکو نوشی صرف پاکستان ہی میںنہیں، عالمی سطح پر بھی ایک سنگین مسئلہ بن چُکی ہے کہ سگریٹ نوشی ایسی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے، جنہیں تھوڑی سی احتیاط برت کے روکا جا سکتا ہے۔تمباکو کا استعمال خواہ سگریٹ، بیڑی، حقّے، سگار ، پائپ، شیشے کی صُورت کیا جائے یا پھر پان،گٹکے اور نسوار وغیرہ میں شامل کرکے، ہر لحاظ سےنقصان دہ ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق دُنیا بَھر میں ایک ارب تیس کروڑ افراد تمباکونوشی کی لَت میں مبتلا ہیں۔اس ادارےکے سال 2013ء میں کیے گئے ایک تجزیئے کے مطابق مَردوں میں اس لَت کی شرح 31.8 فی صد،جب کہ خواتین میں 5.8 فی صد ہے،جب کہ مشرقِ بعید کے مُمالک جاپان، چائنا وغیرہ میں تقریباً 60 فی صد مَرد اس علّت کا شکار ہیں۔حتیٰ کہ بچّے بھی اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں کہ روزانہ لگ بھگ ایک لاکھ بچّے تمباکونوشی کرنے والوں کے حلقے میں شمولیت اختیار کررہےہیں، جو لمحۂ فکریہ ہے۔
اگرچہ ترقّی یافتہ مُمالک، بشمول امریکا میں تمباکونوشی کے رجحان میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے اور پچھلے تین عشروں میں یہ شرح کم ہو کر نصف رہ گئی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقّی پذیر مُمالک میں اس کی شرح و رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ پھر’’مَرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق اس لَت میں مبتلا افراد کی اکثریت نوجوان یا زراعت پیشہ افراد پر مشتمل ہے، جب کہ یہ بھی ایک تکلیف دہ امر ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان میں تمباکو کا استعمال نسبتاً زیادہ پایا جاتاہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے مُلک میں 23.9 ملین سے زائد افراد تمباکو نوشی کی علّت کا شکار ہیں۔ ایک سروے کے مطابق قومی سطح پر اوسطاً تمباکو نوشی کی شرح21.6فی صد ہے اورمختلف مشاہدوں کے مطابق مَردوں میں اوسطاً یہ شرح17.9سے36 فی صد،خواتین میں 1تا9 فی صد اور یونی ورسٹی کے طلبہ میں 15 فی صد تک ہے۔ نیز، شیشے کا استعمال خاص طور پر نوجوانوں میں مسلسل بڑھ رہا ہے۔ 2008ء میں کیے جانے والےایک سروے کے مطابق 43 فی صد نوجوان اور 11 فی صد یونی ورسٹی کی طالبات اس لَت کا شکار ہیں۔
اس کے علاوہ خاصی تعداد اُن افراد کی بھی ہے، جو بغیر دھوئیں کا تمباکو استعمال کرتے ہیں۔ اس کی شرح مَردوں میں 10.5 اور خواتین میں 3.5 فی صد ہے۔ واضح رہے کہ بغیر دھوئیں کا تمباکو قطعاً بے ضرر نہیں کہ اس کے اثرات بھی دھوئیں والے تمباکو جیسے ہی مہلک ہیں۔بدقسمتی سےمعالجین اور شعبۂ طب کے طلبہ بھی تمباکو نوشی کی لَت کا شکار ہیں۔ایک سروے کے مطابق اس شعبے میں قدم رکھنے والے نئے طلبہ، ہائوس جاب کرنے والے ڈاکٹرز میں تمباکونوشی کی شرح 32فی صد ہے۔مزید ستم یہ کہ روزانہ لگ بھگ1000،1200 نئےبچّے اور نوجوان تمباکو نوشی کی علّت میں مبتلا ہورہے ہیں۔
تمباکو نوشی کے صحت سے لے کر معاشی، معاشرتی، سماجی، اقتصادی سطح تک صرف نقصانات ہی نقصانات ہیں۔ اگر اقتصادی پہلو کا جائزہ لیاجائے، تو تمباکو اور اس سے متعلقہ مصنوعات کا کاروبار انتہائی منافع بخش ہے۔ 2016ء میں دُنیا بَھر میں سگریٹ بنانے والی چھے کمپنیز کا مجموعی سرمایہ امریکی ڈالرز میں 346بلین ڈالرز تھا، جو کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار سے 17 فی صد زائد تھا۔دُنیا بَھر میں تقریباً بیس ارب سگریٹس روزانہ فروخت ہوتے ہیں۔ 2014ء میں پاکستانیوں نے تقریباً 164.48 ارب سگریٹس استعمال کیے، جن کا خرچا 258ارب روپےبنتا ہے۔ 2016ء میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں69.43ارب سگریٹس تیار ہوئے۔
تاہم، سگریٹس کی درآمد اُن کی برآمد سے زیادہ تھی، جو کہ پاکستان کے تجارتی خسار ےمیں اضافے کا باعث بنی ۔ 2011ء میں پاکستان دُنیا بَھرمیں تمباکو کاشت کرنے والا دسواں سب سے بڑا مُلک تھا اور یہاں پر تمباکو کی پیداوار 100,000 ٹن تھی، جب کہ تمباکو کی پیداوار اور کاشت سے منسلکہ افرادی قوّت،ہماری کاشت کار برادری کاصرف 0.4سے0.5فی صد ہے۔علاوہ ازیں، ایک مشاہدے سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ تقریباً 61فی صد تمباکو نوش افراد اس لَت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں یا کم از کم روزانہ زیرِاستعمال سگریٹس کی تعداد کم ہوسکتی ہے، اگر ان کی قیمت میں اضافہ کردیا جائے۔
اِسی لیے جب 2013ء سے 2016ء کے دوران تمباکو اور سگریٹ کی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح میں اضافےسے ان کی قیمت بڑھی توقوّت خرید بھی متاثر ہوئی۔پہلےجوہر سال تمباکو یا سگریٹ کی مصنوعات تقریباً 170ارب استعمال کی جاتی تھیں، وہ 2016ء میں کم ہو کر تقریباً 160ارب رہ گئیں اور 2019ء میں تمباکو نوشی پر ہونے والا خرچا 143 ارب روپے ہوگیا، جوبہرحال اب بھی بہت زیادہ تھا۔ یاد رہے کہ تمباکونوشی کی وجہ سے صحت متاثر ہونے کی صُورت میں علاج معالجے کی مَد میں جو اخراجات ہوتے ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔ پھر تمباکو کی مصنوعات فراہم کرنے والی صنعت، ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافے کا سبب بن رہی ہے۔جس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پاکستان میں 1.5 ملین کیوبک میٹرلکڑی اس صنعت میں استعمال ہوتی ہے، جو جنگلات کی(جوپہلے ہی ہمارے مُلک میں بہت کم ہیں)تباہی کے مترادف ہے۔ اور وہ اراضی ،جہاں تمباکو کی کاشت کی جاتی ہے، اس کی بھی زرخیزی خاصی متاثر ہوتی ہے۔
تمباکو ایک ایسا نشہ ہے،جو رفتہ رفتہ انسان کو بے بس کرکے رکھ دیتا ہے کہ اگر سگریٹ کی طلب پوری نہ ہو، تو گھبراہٹ اور بے چینی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔نیز،مزاج میں غصّہ، چڑچڑا پن اور ڈیپریشن بھی پیدا ہوتا ہے۔تمباکو میں موجود کیمیائی اجزاء خوش گوار اور کیف آگیں اثرات مرتّب کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اعصاب پُرسکون، پٹّھوں کا تناؤ کم اور توانائی کا احساس بڑھ جاتا ہے،مگر صرف ایک ہی کش کے ذریعے جسم میں متعدّد زہریلے، مضرِ صحت اور سرطان کا باعث بننے والےکیمیائی اجزاءبھی جسم میں داخل ہوجاتے ہیں ،جو پھر خون میں شامل ہوکر جسم کے ہر عضو اور نظام کو متاثر کرتے ہیں، خواہ وہ نبض کی رفتار ہو یا خون کا دباؤ۔
بدقسمتی سے جس ماحول اور آب و ہوا میں تمباکو کا دھواں شامل ہوتا ہے، اس میں سانس لینے والےوہ افراد بھی،جو خود تمباکو نوشی نہیں کرتے،متاثر ہوجاتے ہیں۔ طبّی اصطلاح میں اِسے سیکنڈ ہینڈ اسموکنگ(Second Hand Smoking) یا پیسیو اسموکنگ (Passive Smoking)کہاجاتا ہے۔اِسی طرح ایک اور اصطلاح تھرڈ ہینڈ اسموکنگ (Third Hand Smoking) بھی ہے، جو ان مضرِ صحت کیمیائی اجزاء کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہے، جو فرش، فرنیچر اور دیگر اشیاء کی سطح پر رہ جاتے ہیں اور تمباکو نوشی کے کئی گھنٹوں بعد تک فضا میں موجود رہتے ہیں۔مختلف سطحوں پر جم جاتے ہیں۔ خواہ بال ہوں، کپڑے، بستر کی چادریں یا قالین وغیرہ۔تمباکو اور اس کےدھوئیں میں تقریباً 4ہزار کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں، جن میں قریباً دو سو اجزاءزہریلے اثرات کے حامل ہیں اور 70 کے قریب ایسے ہیں، جو مختلف اقسام کے سرطان کا باعث بنتےہیں،انہیں طبّی اصطلاح میں" Carcinogenـ" کہا جاتا ہے۔
تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والا دھواں خون کی شریانوں میں چکنائی جمع کرکے انہیں سخت اور تنگ کردیتا ہے، جو دِل کےدورے اور فالج کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، تمباکو میں شامل نکوٹین ایک ایسا زہریلا کیمیائی جزو ہے، جو تمباکونوشی کی لَت کا باعث بنتا ہے، جب کہ یہ کیڑے مار ادویہ میں بھی استعمال کیاجاتا ہے۔اسی طرح امونیا عام طور پرکھاد بنانے اورمختلف اشیا ءکی صفائی میں استعمال کی جاتی ہے، جب کہ سگریٹ میں اس جزو کی موجودی نکوٹین کا اثر بڑھاتی ہے۔بینزین (Benzene) بھی انتہائی مضرِصحت ہے، جو جراثیم کُش ادویہ یا پٹرولیم مصنوعات میں شامل ہوتی ہے اورسگریٹ کے دھوئیں میںخاصی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ کاربن مونو آکسائیڈ بھی تمباکو کے دھوئیں میں زائدمقدار میں پائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اس کی زائد مقدار انتہائی مہلک اور خون میں آکسیجن کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ہائیڈروجن سائنائیڈ (Hydrogen Cyanide) جو گیس چیمبرز میں لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کی گئی،یہ بھی سگریٹ کے دھوئیں میں پائی جاتی ہے۔فارمل ڈی ہائيڈ(Formal Dehyde)مُرددہ اجسام اور میتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے،جب کہ دھوئیں یاگیس کی شکل میں یہ آنکھ، ناک، حلق میں سوزش کا باعث بنتی ہے، خاص طور پر جب تمباکو نوش افراد سگریٹ کا دھواں نگلتے ہیں۔تمباکو میں شامل وینائل کلورائیڈ(Vinyl Chloride) پلاسٹک بنانے میں کام آتا ہے۔
آرسینک(Arsenic)، وہ زہریلا عنصر ہے، جو چوہے مارنے کے لیےبھی استعمال کیاجاتا ہے۔کیڈمیم (Cadmium)سفید رنگ کا ایک دھاتی عنصر ہے،جو برقی ملمع کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تمباکونوش افراد کے جسم میں اس کی مقدار تمباکو استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں دگنی پائی جاتی ہے۔علاوہ ازیں،سیسہ اور پولونیئم( Polonium )وہ زہریلے تاب کار عناصر ہیں، جو تمباکو یا سگریٹ کے دھوئیں میں پائے جاتے ہیں،جن سےRadon Gasپیدا ہوتی ہے، جو پھیپھڑوں کے سرطان کی بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ یورینیم (Uranium) بھی تمباکو میں شامل ہوتاہے۔
علاوہ ازیں،سگریٹ کے دھوئیں میں موجود دیگر مضرِصحت اجزاء میںایسٹیون (Acetone)بھی شامل ہے،جو نیل پالش میں پایا جاتا ہے،توایسٹک ایسڈ(Acetic Acid )بھی پایا جاتا ہے، جو عموماً بال رنگنے والی پراڈکٹس میں استعمال کیاجاتا ہے۔نیز،تمباکو میں کئی اور بھی مضرِ صحت دھاتیںپائی جاتی ہیں، جو صحت اور جسمانی نظام متاثرکرتی ہیں۔ اس کے علاوہ نائٹروسامینز(Nitro Samines)،پولی سائیکلیک ایرومیٹک ہائیڈروکاربن(Polycyclic Aromatic Hydrocarbons)،فینول کمپاؤنڈ (Phenol Compound) اور بے شمار اجزاء بھی پائے جاتے ہیں، جو عام طور پرمختلف اقسام کے سرطان سمیت پھیپھڑوں، دِل کے عوارض اور صحت کے کئی سنگین مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔
اِسی طرح تمباکو میں شامل تار(Tar)ایک مُہلک فاسد مواد ہے، جو تمباکو جلنے کے بعد باقی رہ جاتا ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں پایا جانے والا تار بتدریج پھیپھڑوں کے اندر جمنے لگتا ہے،یہاں تک کہ صحت مند گلابی مائل پھیپھڑے مٹیالی رنگت اختیار کرلیتے ہیں اور ان کی جراثیم سے لڑنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ تار بھی کئی طرح کے سرطان کا موجب بنتا ہے۔ علاوہ ازیں، کئی اور مضرِ صحت ٹاکسنز پھیپھڑوں میں جم کر خون کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔
تمباکونوشی کی متعدد اقسام ہر اعتبار سے مضرِ صحت ہی ہیں۔جیسے بغیر دھوئیں والا تمباکو گرچہ عام سگریٹ کے مقابلے میں کم مہلک ہے، اس کے باوجود مضرِصحت ہے۔ ان میں بھی Benzopyrenesاور Aromatic Hydrocarbons ہوتے ہیں، جو کئی اقسام کے کینسرز کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسی طرح سگار بناوٹ کے لحاظ سے ایسا ہوتا ہے کہ اس کا تمباکو پوری طرح جل نہیں پاتا، جس کی وجہ سے اس میں شامل انتہائی مُہلک اجزاء نائٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، امونیا اور تار کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ سگار کے دھوئیں میں بھی کم و بیش وہی اجزاء پائے جاتے ہیں، جو سگریٹ کے دھوئیں میں ہوتے ہیں، لیکن ان کا تناسب اور مقدار مختلف ہوسکتی ہے۔
ای سگریٹ اگرچہ عام سگریٹ کے مقابلے میں کم مضرہے، لیکن اس میں بھی مضرِ صحت اجزاء مختلف مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ حالاں کہ عام سگریٹ کے مقابلے میں ای سگریٹ میں نائٹروسامینزکی مقدارکم ہوتی ہے، پھر بھی پھیپھڑوں، حلق، غذا کی نالی، جگر اور لبلبے کے سرطان کا باعث بن سکتی ہے۔ معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ ای سگریٹ کی بدولت تمباکو نوشی کی لَت سے چھٹکارا آسان ہوجاتاہے، تو ایساہرگز نہیں ہے۔یاد رکھیے، ای سگریٹ تمباکو کا نعم البدل ہے، چھوڑنے کا ذریعہ نہیں۔
تمباکونوشی اور صحت کے مسائل
ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر سال تقریباً 80 لاکھ افراد تمباکونوشی یا اس سے متعلقہ امراض کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ نیز، پاکستان میں یہ تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار سالانہ ہے۔ ایک اور تجزیئے کے مطابق تمباکونوش اپنی طبعی موت سے اوسطاً پندرہ سال پہلے انتقال کرجاتے ہیں اور ہر چھے سیکنڈ بعد ایک سابقہ یا حالیہ تمباکونوش اس لَت کی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے۔
علاہ ازیں، اگر ایک فرد اس نشے کی وجہ سے لقمہ ٔاجل بنتا ہے ،تو اس کے ساتھ لگ بھگ تیس افرادسیکنڈ ہیڈ اسموکنگ کی وجہ سے سنگین امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق سیکنڈ ہینڈ اسموکنگ سے متاثرہ افراد میں سالانہ اموات کی شرح 41ہزار ہے، جب کہ 400بچّے بھی انتقال کرجاتے ہیں۔ ان متاثرہ افراد میں بھی فالج، پھیپھڑوں کا سرطان اور امراضِ قلب کی شرح بڑھ جاتی ہے۔بچّوں میں بھی اچانک ناگہانی موت، پھیپھڑوں کے امراض، شدید دَمہ، کانوں کے امراض اور نشوونما متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمباکونوش فرد میں کسی بھی مرض کی وجہ سے موت کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔
خون کی شریانیں تنگ اور سخت ہونے کے سبب دِل کی دھڑکن تیز،خون کا دباؤ بڑھنے سمیت شریانوں میں لوتھڑے بن سکتے ہیں۔نیز، جِلد اور ٹانگوں کا دورانِ خون بھی متاثر ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں پیروں میں زخم ہوجاتے ہیں،جو مشکل ہی سے مندمل ہوپاتے ہیں۔ لوتھڑوں اور شریانوں کے پھٹنے اور دورانِ خون متاثر ہونے کی وجہ سے امراضِ قلب اور فالج کا خطرہ دوسے چار گنا بڑھ جاتا ہے۔علاوہ ازیں، فالج کی وجہ سے ہونے والی 15 فی صد اموات تمباکونوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔پھیپھڑوں کے سرطان کے امکانات مَردوں میں 25 فی صد، جب کہ خواتین میں 25.7فی صد سے زائد پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پھیپھڑوں میں سوزش اور عملِ تنفس کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔
اسے طبّی اصطلاح میں"Emphysen"کہتےہیں، جس کی وجہ سے مستقل کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف( جو دَمے جیسی ہوتی ہے) لاحق ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ تمباکونوش افراد میں پھیپھڑوں کے سرطان کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد بریسٹ، پروسٹیٹ اور بڑی آنت کے سرطان سے ہونے والی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ دَمے کا عارضہ شدّت اختیار کرسکتا ہے، تو پھیپھڑوں اور تنفس کی ایک بیماری سے، جسے طبّی اصطلاح میں سی او پی ڈی(Chronic Obstructive Pulmonary Disease)کہتے ہیں،لاحق ہونے کے باعث تمباکونوشی نہ کرنے والوں کے مقابلے میں شرحِ اموات کا خطرہ 12تا13گنا بڑھ جاتا ہے۔
مثانے، خون ، غذا کی نالی، بڑی آنت، لبلے، گُردے ، پیشاب کی نالی، حلق، سانس کی نالی اور معدے، غرض کہ جسم کے تقریباً ہر عضو کے سرطان کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔علاوہ ازیں،ہڈیوں کے بُھربُھرے پَن کی وجہ سے فریکچر کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ تمباکو کا استعمال معدے کی سوزش کی وجہ بنتا ہے ۔تمباکو نوش افراد کی جِلدپر وقت سے پہلے جُھریاں پڑجاتی ہیں۔ رنگت زردی مائل ہوکر بے رونق سی لگتی ہے۔ اپنی عُمر سے کہیں زیادہ بوڑھے لگنے لگتے ہیں۔
نیند متاثر ہوجاتی ہے،تو بھوک بھی کم لگتی ہے۔ یہی نہیں، خواتین میں وضع حمل کے امکانات کم ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی حاملہ تمباکو نوشی کی لَت میں گرفتار ہو، تو شکمِ مادر میں پرورش پانے والا بچّہ بھی مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ پاتا۔ اس کی نشوونما متاثر ہوجاتی ہے،پھر ایسے بچّوں کی پیدایش قبل از وقت ہونے کا امکان بھی خاصا بڑھ جاتا ہے یا بچّہ مُردہ یاپھر پیدایشی نقص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ بعض کیسز میں حمل غیر مناسب جگہ ٹھہرجاتا ہے۔رہی بات مَردوں کی، تو ان میں تمباکو نوشی کی لَت جرثوموں کی تعداد کم کرسکتی ہے۔جرثومے کم زور یا ان کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے نہ صرف بچّے پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، بلکہ بچّے میں پیدایشی نقص یا پھر خاتون کاحمل ضایع ہونے کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔نیز، دانت متاثر اور پیلے ہوجاتے ہیں، جھڑنے لگتے ہیں۔
منہ سے بدبو بھی آتی ہے، تو سونگھنے اور ذائقے کی صلاحت متاثر ہوسکتی ہے۔ بعض کیسز میں قوّتِ سماعت بھی ضایع ہوجاتی ہے۔علاوہ ازیں، ذیابطیس میں مبتلا ہونے کے امکانات عام افراد کی نسبت 30سے40فی صد بڑھ جاتے ہیں، تو موتیا کی شکایت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ تمباکو نوش اس لَت میں مبتلا ہونے سے قبل چست و توانا ہوتا ہے، بعد ازاں آہستہ آہستہ دماغی صلاحیتیں متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ تمباکونوشی کے مضر اثرات ہر فرد میں مختلف انداز سے مرتّب ہوتے ہیں، جو متعلقہ فرد کی صحت، وزن، جسامت کے ساتھ کتنی مقدار میں تمباکو نوشی کی جارہی ہے، پر منحصر ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے، جو فرد جتنی زیادہ تمباکونوشی کرتا ہے،اُس میں اتنے ہی زیادہ سرطان اور صحت کے دیگر مسائل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یعنی ایک پیکٹ سگریٹ پینے والوں میں خطرات آدھا پیکٹ پینے والوں کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح تمباکونوشی کا دورانیہ جتنا طویل ہوگا،صحت کو لاحق خطرات بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یعنی بیس سال تک تمباکونوشی کرنے والوں میں دس سال تک کرنے والوں سے زیادہ خطرات پائے جاتے ہیں۔
تمباکونوشی اور کووڈ-19
تمباکونوشی نظامِ ِتنفس سے متعلقہ کئی بیماریوں کا سبب ہے۔ اس کی وجہ سے پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں کی شدّت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگرتمباکو نوش کورونا وائرس کا شکار ہوجائے، تواس میںوائرس کی علامات شدیدہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت نے طبّی ماہرین کی مشاورت سے 29اپریل کوایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے دُنیا بَھر کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ تمباکو استعمال کرنے والوں میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کےامکانات دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ پائےجاتے ہیں، کیوں کہ یہ وائرس بنیادی طور پر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور تمباکونوشی پھیپھڑوں اور ان کے افعال کو پہلے ہی بُری طرح متاثر کرچُکی ہوتی ہے، لہٰذا تمباکو نوش میں قوّتِ مدافعت اور بیماری سے لڑنے کی صلاحیت کم زور پڑجاتی ہے،تو اس صُورت میں اگر کورونا وائرس لاحق ہوجائے، تو نہ صرف عارضہ شدّت اختیار کرلےگا ،بلکہ موت کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ عالمی ادارۂ صحت نے یہ بھی تنبیہ کی ہے کہ یہ کہنا کہ تمباکو یا نکوٹین کورونا وائرس لاحق ہونے کا خطرہ کم کردیتاہے،قطعاً غلط ہے، اس پر بالکل یقین نہ کیا جائےاور فی الفور تمباکونوشی ترک کردی جائے۔
ترکِ تمباکونوشی کے فوائد
تمباکو نوشی کی لَت کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں، بلکہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لیےنقصان دہ ہی ہے، لہٰذا تمباکو نوش کو چاہیے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے، اس علّت سے نجات حاصل کرنے کی جانب دھیان دے کہ ترکِ تمباکو نوشی کے بے شمار فوائد ہیں ۔جیسے سگریٹ ترک کرنے کے بیس منٹ بعد بلڈ پریشر نارمل ہوجاتا ہے ۔ دِل کی رفتار معمول پر آجاتی ہے۔12 گھنٹے بعد کاربن مونو آکسائڈ کی سطح کم ہو کے نارمل اورآکسیجن کی سطح خون میں دوبارہ بہتر ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔ 2سے12 ہفتے بعد خون کی گردش میں بہتری واقع ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کی کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے ۔ 1سے9ماہ بعد کھانسی اور سانس کا پھولنا بھی کم ہوجاتا ہے ۔
علاوہ ازیں،تمباکو نوشی ترک کرنے کے ایک مہینے کے اندر دماغ میں نکوٹین جذب کرنے والے حصّے کی،جسے طبّی اصطلاح میں Receptors کہتے ہیں، تعداد بھی کم ہوکر معمول کے مطابق ہوجاتی ہے اور اس کے عادی ہونے کا سلسلہ بھی رُک جاتا ہے۔ قوّتِ سماعت اور بینائی بہتر ہوتی ہے۔ خاص طور پر رات کے وقت حلق اور منہ کی کڑواہٹ بہتر ہوجاتی ہے۔ جِلد پر بھی مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ جھریاں پڑنے اور وقت سے پہلے بڑھاپا ظاہر ہونے کے آثار کم ہوجاتے ہیں۔ 24گھنٹے کے بعد دِل کے دورے کا احتمال تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے ۔ خون پتلا ہونے کے سبب خون میں لوتھڑے بننے، فالج و دِل کے دورے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
گرچہ تمباکونوشی کی لَت چھوڑنے کے بعد بھی شریانوں میں جو چکنائی جمی ہوتی ہے، اس کی تہیں کم نہیں ہوتیں، مگر خون میں کولیسٹرول اور دیگر چکنائیوں کی مقدار کم ہوجاتی ہے، نتیجتاً نئی چکنائیوںکی تہیں شریانوں میں نہیں جمتیں۔ تمباکو نوشی کے سبب پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں،جو یہ لَت ترک کرنے کے بعد اپنے اصل حجم میں واپس نہیں آسکتے(اسی لیے تمباکونوشی کو جتنی جلدی ترک کردیں، اتنا بہتر ہے، تاکہ مستقل نقصان نہ ہو)، البتہ دو ہفتے کے اندر سانس پھولنا کم ہوجاتا ہے اور سیڑھیاں چڑھنے میں بھی دشواری پیش نہیں آتی۔ پھیپھڑوں کی ساخت اور ان کی بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت میں بہتری واقع ہوتی ہے،تو سرطان لاحق ہونے کے امکانات بھی کم سے کم ہوجاتے ہیں۔ نیز، پیٹ پر جمی چکنائی، موٹاپا اور بڑھا ہوا پیٹ بھی کم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ذیابطیس میں مبتلا ہونے کے امکانات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ خواتین میں ایسٹروجن نامی ہارمونز کی رطوبت کی مقدار بھی تمباکو نوشی چھوڑنے کے بعد آہستہ آہستہ معمول پر آجاتی ہے اور ان میں صحت مند بچّے کی ماں بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اِسی طرح مَردوں میں جرثوموں کی کم زوری میں بہتری آتی ہے، مدافعتی قوّت بھی بحال ہونے لگتی ہے، دورانِ خون بہتر ہونے سے زخم ٹھیک ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، پٹّھے مضبوط ہوتے ہیں۔ فریکچر کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ ایک سال بعددِل کی بیماریوں کا خدشہ نصف رہ جاتا ہے ۔
پانچ سال بعد خون کی شریانیں ٹھیک ہونے لگتی ہیں اور فالج کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔دس سال بعد متعلقہ فرد میں پھیپھڑوں کے سرطان اور اس سے مرنے کے امکانات اُس فرد کے مقابلے میں آدھے رہ جاتے ہیں، جو مستقل طور پر تمباکونوشی کررہا ہو۔نیز، مُنہ، حلق، غذا کی نالی، گُردے اور مثانے کے سرطان کے امکانات بھی کم سے کم ہو جاتے ہیں۔15سال بعد امراضِ قلب، دِل کے دورے اور لبلبے کے سرطان کے امکانات عام فرد کے برابر ہوجاتے ہیں۔20سال بعد تمباکونوشی سے ہونے والی اموات کے امکانات خواہ وہ پھیپڑوں کی عوارض، لبلبے کے سرطان سے ہو، اُس فرد جتنے ہی رہ جاتے ہیں، جو اس لَت سے دور ہو۔
اگرچہ بعض افراد کے لیے تمباکونوشی ترک کرنا مشکل امر بن جاتا ہے کہ نکوٹین عادی بنانے والا جُزوہے، لیکن مناسب تدابیر اختیار کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تمباکو نوشی کی علّت سے نجات کے لیے سب سے ضروری طرزِزندگی میں تبدیلی اور روزانہ ورزش کرنا ہے۔ چہل قدمی بھی کرسکتے ہیں،لیکن سماجی فاصلے کا خیال رکھا جائے،جب تمباکو کی طلب ہو ،توچیونگم یا کینڈی استعمال کریں، زیادہ سے زیادہ پانی پیئں، اپنے ہاتھوں کو مصروف رکھیں، جس کے لیے کوئی گیم کھیل سکتے ہیں، کچھ لکھ سکتے ہیں،نیز ڈرائنگ یا پینٹنگ کرکے بھی ہاتھوں کو مصروف رکھا جاسکتا ہے۔
وقفے وقفے سے گہری سانسیں لیں، کسی تفریحی مقام پر جائیں،مگر وبائی دَور میں احتیاط ضروری ہے،لہٰذا وہ دوست جو اس لَت کا شکار نہیں، اُن کے ساتھ یا فیملی کے ساتھ وقت گزاریں۔ اُن افراد سے دُور رہیں، جو تمباکونوشی کرتے ہوں۔ نیز، ایسے ماحول سے بھی دُور رہا جائے، جہاں تمباکونوشی کی جاتی ہو۔ اس کے علاوہ بعض ادویہ بھی معاون ثابت ہوسکتی ہیں، لیکن اس سلسلےمیں اپنے معالج سےمشورہ ضروری ہے۔
(مضمون نگار، معروف فزیشن، ماہرِامراضِ ذیابطیس ہیں اور حنیف اسپتال اور الحمرا میڈیکل سینٹر، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)