• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدارا یہ بیلٹ پیپر پر خالی خانے کا چکر بند کر دیں، یہ واقعی شیطانی چکر ہے اور کہیں ایسا نہ ہو یہ چکر گھن چکر بن جائے اور اس ملک کی تقدیر کے بادشاہوں کو چکر آجائیں۔ لطیفہ پرانا ہے لیکن یہاں تو 68سال سے پرانے لطیفوں پر نہ صرف ہنسنے کی عادت ہے بلکہ ان لطیفوں کو اپنے سر پر بٹھانے انہیں ہیروبنانے اور انہیں بادشاہ بنانے کا رواج ہے۔ تو آپ یہ بھی سن لیں ، ایک سردار جی نے محل بنوایا پھر دوستوں کو بلایا۔ آؤ جی میرا گھر دیکھ لو ۔ گھر کا وزٹ کراتے ہوئے انہوں نے ایک سوئمنگ پول دکھاتے ہوئے کہا یہ گرم پانی کا پول ہے۔ جب میراگرم پانی میں نہانے کو دل کرتا ہے تو میں اس میں نہاتا ہوں پھر انہوں نے ایک اور پول دکھایا بولے یہ ٹھنڈے پانی کا ہے، جب میرا دل ٹھنڈے پانی کو کرتا ہے تو میں اس میں نہاتا ہوں پھر انہوں نے ایک پول دکھایا وہ خالی تھا۔ کسی نے پوچھا یہ خالی کیوں ہے ،کہنے لگے !بندے کا کبھی دل نہانے کو بھی نہیں کرتا ۔ الیکشن میں اگر اس غول نما مخلوق کا دل گرم پانی کی پیپلز پارٹی اور ٹھنڈے پانی کی مسلم لیگ سے اشنان کرنے کو نہ کیا تو کیا بنے گا؟کاش ایسا ہو جائے اور اگر ایسا ہو گیا تو یقین جانیے یہی خاموش انقلاب ہو گا۔ ووٹ ضائع کرنا جرم ہے لیکن اس بار یہ جرم نہیں فیصلہ ہوگا۔ لیکن مجھے معلوم ہے ایسا نہ ہوگا۔ ہم فیصلہ کرنے والی قوم نہیں ہم فیصلوں کا انتظار کرنے والی مخلوق ہیں ۔ ہم نے پہلے اپنے فیصلے کئے نہ اب کریں گے۔ ملک بھر میں جاری مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی کے جلسوں میں عوامی شرکت دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ اب اس قوم کو مزید رگڑا لگنا چاہئے۔ ابھی اس میں بے انتہا گنجائش موجود ہے۔ لگتا ہے ابھی اس کا تیل پوری طرح نہیں نکلا۔ ہم ایویں اتنے پریشان ہوتے ہیں۔ عوام کو وہی مل رہا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ سیاست دانوں کو گالیاں بھی دیتی ہے ، کوستی بھی ہے اور پھر اسی عطارکے لونڈے سے دوابھی لیتی ہے۔


سیاست کے ”بیڈمین“ جمشید دستی کو نہ صرف تین سال سزا ہوگی بلکہ انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اچھا ہوا۔وہ تھا ہی اس قابل۔ پہلے نااہل ہوا عوام نے پھر اسے منتخب کردیا۔ واہ یہ کیا بات ہوئی عوام کا انتخاب بھی خوب ہے۔ ایک طرف جعلی ڈگری والوں کو کوستی ہے اور دوسری طرف جمشید دستی کو پہلے سے زیادہ ووٹ دیتی ہے۔ نہ جانے آخر یہ چاہتی کیا ہے۔ جمشید دستی بھی عجیب آدمی ہے عدلیہ سے ڈرتا ہے نہ اپنی پارٹی قیادت سے۔ اسے پتہ بھی ہے حنا ربانی کھر پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت کو ہی نہیں بلکہ اپنی کارکردگی سے امریکن لیڈر شپ کو بھی اپنا دوست بنا چکی ہے۔ جمشید دستی نہ جانے خود کو کیا سمجھتا تھا۔ وہ پارلیمنٹ کا غریب ترین رکن تھا۔ یہ اعزاز تو بذات خود ایک کلنک کا ٹیکہ ہے۔بندہ اسمبلی میں رہ کر بھی غریب رہے بھلا غریب ترین آدمی کا کیا کام؟ وہ سمجھتا تھا کہ پارلیمنٹ کی کینٹین اس کے لئے بنائی گئی تھی۔ جہاں چائے دو روپے ، چکن بریانی آٹھ روپے، سوپ پانچ روپے کا ملتا ہے۔ او بھائی ۔۔۔مسٹرجمشید دستی ۔ ۔۔غریب ترین رکن تم بہت برے آدمی ہو ۔ جعلی ڈگری رکھ کر ڈرامے بازی کرتے ہو۔ بار بار عوام سے اعتماد کا ووٹ لیتے ہو اور پھر تم اتنے بد تمیز بھی ہو کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے کھوتا ریڑھی پر آجاتے ہو۔ تمہیں تو اسی کھوتا ریڑھی پر بٹھا کر ہتھ کڑیاں لگا کرمظفر گڑھ کی گلیوں میں پھرایا جائے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی لمبی لمبی پراڈوز، بی ایم ڈبلیوز کی موجودگی میں کھوتا ریڑھی۔۔۔سچی بات ہے میں تم سے کبھی نہیں ملا۔ تمہارے متعلق نہ جانے کیا کیا کہانیاں میڈیا میں آتی ہیں۔ لیکن مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ میں کوشش کے باوجود تم سے نفرت نہیں کر پا رہا ۔ تم ہو سکتا ہے بہت برے ہو۔ جعلی ڈگری پر الیکشن لڑنا شرفا کا کام نہیں۔ تم نے بھی گھٹیا حرکت کی لیکن شاید تمہیں پتہ نہیں تمہارا جرم جعلی ڈگری نہیں پارلیمنٹ کا غریب ترین رکن ہونا ہے۔ کھوتی ریڑھی پر بیٹھنا ہے۔ یہ ملک پاکستان ہے یہاں” سب شعاواں دا چکر“ ہے۔ یہ ایسی ”شعاواں“ہیں جن میں غریب ترین ، کمزور ترین، بے بس ترین پکڑے جاتے ہیں۔چھوٹی مچھلیاں شعاواں کے جال میں پھنستی ہیں بڑے مگر مچھ آزاد پھرتے ہیں۔ میں تمہارا حمایتی ہوں نہ میں کسی جعلی ڈگری والے فراڈیے کے لئے لکھ سکتا ہوں۔ لیکن سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ ”شعاواں دے چکر“میں تم جیسے ہی کیوں پھنستے ہیں۔ سپریم کورٹ ، آئی ایس آئی کیس میں واضح طور پر بہت سوں کو مجرم قرار دے چکی ہے لیکن کیا کریں ”شعاواں دا چکر “ہے۔ وہ سکین نہیں ہو سکیں گے۔ آصف زرداری جب صدر نہیں تھے تب بھی عدالتوں سے سزا نہ پا سکے۔ بس شعاواں دا چکر ہے۔ چونکہ ” مجاں مجاں دیاں بہناں ہوندیاں نے“(بھینس بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں)۔ اس لئے تم اپنے اپنے لگتے ہو۔ غریب ترین کھوتی ریڑھی والے کیا کریں۔ہم نے پانچ سال میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ کروڑوں روپے کے فراڈکرنے والے اب شریف معصوم اور وطن پرست لگتے ہیں۔ اب کرپشن کا سٹینڈرڈ کروڑوں سے نکل کر اربوں روپے پر پہنچ گیا ہے۔ اربوں کی لوٹ مار میں کروڑوں والا فراڈیا اس بدمعاش بچے جیسا لگتا ہے جو اپنے سے کمزوروں کی ٹافیاں چھین کر بھاگ جاتا ہے۔ عجیب الیکشن ہیں پہلے عوام کو یقین نہیں آرہا تھا کہ الیکشن ہوں گے۔ اب امیدواروں کو یقین نہیں آرہا ہے کہ وہ الیکشن لڑیں گے بھی یا نہیں۔ بیانات سے زیادہ تو اعتراضات کی خبریں آرہی ہیں۔ جسے دیکھو اعتراض جس پر دیکھو اعتراض ۔لیکن چونکہ یہ مملکت خداد اد پاکستان ہے اور یہاں ” شعاواں داچکر“ بھی ہے لہٰذا ان چکروں میں بس وہی پھنسیں گے جو کھوتی ریڑھی والے ہوں گے یا بس چھوٹے موٹے رئیس ٹائپ ہوں گے ۔ ورنہ جو طے شدہ سٹیمپ یافتہ لیڈر ہیں وہ صاف شفاف رہیں گے۔ نیب جتنے مرضی عیب لگا لے کچھ نہیں ہو گا۔آخر میں اسے معافی مانگنا پڑے گی۔ یہ انتخا بات ہیں اس میں قومی قیادت نہیں بین الاقوامی قیادت منتخب ہوتی ہے اور اس بار بھی ہونی ہے۔ جس نے طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں، امریکہ اور نیٹو کو محفوظ راستہ فراہم کرنا ہے ۔ ایران کے خلاف ممکنہ جنگ میں اپنا کندھا فراہم کرنا ۔ پتوکی ، گھوٹکی، شکار پور، چارسدہ جمشید دستیوں کا حلقہ انتخاب تو ہو سکتا ہے لیکن جنہوں نے بین الاقوامی خدمات انجام دینی ہیں ان کا حلقہ انتخاب پینٹاگون، وائٹ ہاؤس ہیں۔ ہم نے ووٹ ڈالنے ہیں اور آئندہ قیادت کا فیصلہ وہاں سے ہو نا ہے ، بلکہ ہو چکا اور اسی لئے یہ ”شعاواں دا چکر“ ہے۔ اور تم دیکھ لو گے کہ اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے مختلف سنگین مقدمات میں بلاواسطہ سزا یافتہ افراد اس چکر کی وجہ سے ریٹرننگ افسروں کو نظر ہی نہیں آئیں گے۔ وہ صاف بچ نکلیں گے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں شعاواں دا چکر عطا کیا۔ ورنہ آج ریٹرننگ آفیسر ان شعاواں کے اثر سے نکل آئیں تو پتہ چلے پوری پاکستان دس پندرہ یا شایداس سے بھی کم امیدوار سکروٹنی کے عمل سے گزرکر سامنے آئیں ہیں۔ یہ شعاواں دا ہی چکر ہے کہ آج اس ملک کو لوٹنے والے اصل مجرموں کو سزا ہوئی نہ ان پر پابندی لگی ۔ چھیاسٹھ سال سے اور کیا ہو رہا ہے۔ آئین ، قانون سب شعاواں کے زیر اثر ہیں اسی لئے آئین توڑنے والے بینظیر قتل میں مطلوب جنرل پرویز مشرف کو حفاظتی ضمانت مل جاتی ہے۔ ان کے تمام مبینہ گناہ شعاواں دے چکر میں سب کو نظر آنے بند ہو جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ ان کی وجہ سے 10سال سعودی میں غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے میاں صاحب بھی اپنی زبان بندی کر لیتے ہیں۔


جس دن سے اس ملک سے شعاواں دا چکر ختم ہو گیاتو سب ٹھیک بھی ہو جائے گا۔ پھر جیل اکیلا جمشید دستی نہیں جائے گا اور بھی بہت سے لوگ جائیں گے۔ یہ چکر ختم ہو گیا تو پھر کسی کو بکتر بند سے باہر نکل کر وکٹری کا نشان بنانے کی اجازت ہو گی نہ ”وچو ں وچ“رستہ نکال کر کہیں جانے کا موقع۔پھر بے رحم احتساب ہوگا سب سے حساب کتا ب ہوگا ابھی وقت لگے گا۔ اس قوم سے بہتر تو وہ اندھے ہیں جو بصارت نہ ہونے کے باوجود انسان کا کردار اس کے چہرے سے نہیں عمل سے پہچانتے ہیں۔ ہم بھی پہچاننے لگیں گے۔ جب ہم پر رگڑے کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ ابھی ہمارا مکمل تیل نہیں نکلا ، ابھی ہمارے بچے بھوک سے بلبلاتے ہیں مرتے نہیں۔ جب مرنے لگیں گے تو شعاواں دا چکر بھی ختم ہو جائے گا۔


تازہ ترین