کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سووہ مہرباں نہیں ہے
کسی آنکھ کو صدا دوکسی زلف کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائبان نہیں ہے
( مصطفی زیدی)
پانامالیکس اور پھر اسکے بعد ہونے والی میڈیا پر بحث اور پھر لچھے دار تبصروں نے تو سارا سیاسی ماحول راتوں رات بدل دیا۔ آئس لینڈ کے کمزور دل وزیراعظم نے استعفیٰ دے کر دوسرے تمام وزیر اعظموں کو امتحان میں ڈال دیا ۔ مگر کوئی بات نہیں آخر لوگ امتحان میں فیل بھی تو ہوتے ہیں اگر ہم پاس نہ ہوئے تو کونسی قیامت ٹوٹ جائیگی ۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص ہر امتحان میں پاس ہو آخر کسی کو فیل بھی تو ہونا ہوتا ہے ۔ ’’ اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے ‘‘۔ کسی وزیر باتدبیر نے پانامہ لیک کو پاجامہ لیک قرار دیا ۔ میں ان کے تبصرے سے اتفاق کرتا ہوں کیوں کہ اس لیک سے کئی پاجامے لیک ہوگئے ہوں گے ۔کسی نے اسے شیطانی لیک کہا، وزیر باتدبیر کا یہ تبصرہ بھی سمجھ آتا ہے ۔ صرف یہ سمجھ نہیں آیا کہ لیک کرنے والا شیطان ہے یا کوئی دوسرا بہرحال یہ مسائل تصوف ہیں اور چھوٹے لوگوں کاکام نہیں کہ وہ ان مسائل پر غور کریں ۔ اخباری اطلاع کے مطابق اس پر غور کرنےکیلئے مولانا طاہر القادری صاحب بذات خود پاکستان تشریف لانے والے ہیں صرف دھرنے کا مقام طے کرنا ہے اور باقی کام وہ خود ہی کرلیں گے ۔ اس بار ڈی چوک میں شاید قبضہ نہ ملے کوئی بات نہیں ’’ مقامات آہ فغاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ‘‘ پاکستان سیاسی اعتبار سے بہت عمدہ ملک ہے اس لحاظ سے کہ ایک تو ہر شخص یہاں سیاست کررہا ہوتا ہے اوردوسرا یہ کہ موضوعات کی کمی نہیں ہوتی قادری کا پھانسی کا معاملہ ٹھنڈا پڑا تو فوراً دوسرا معاملہ سامنے آگیا کچھ نہ کچھ ہاتھ میں رہتا ہے اور عوام کو غم روزگار بھلائے رکھتا ہے ۔ لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کرتبصرے سن کرمن ہی من میں خوش ہوتے رہتے ہیں کہ بس اب تبدیلی آنے والی ہے ۔ انہوں نے اپنی تقدیر کی تبدیلی کام کرنے سے وابستہ نہیں کی ہوتی بلکہ حکومت کی تبدیلی سے منسلک کرکے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں کہ اب کی بار کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور پچھلی مرتبہ جو کمی رہ گئی ہے اسے جلد پورا کرینگے کیونکہ حکومت یہاں باریوں سے آتی ہے ایک ٹیم بیٹنگ کررہی ہے تو دوسری سیاسی ٹیم فیلڈنگ میں مصروف ہوتی ہے اور اپنی بیٹنگ کا انتظار کرتی ہے کہ آتے ہی پہلی بال پر چھکا ماریں گے اور عموماً مار بھی لیتے ہیں یہاں کام کرکے کوئی نہیں کمانا چاہتا اور جو کوئی بھی کام کرتا ہے اسکا زیادہ کام تو سرکاری محکموں کے چکر لگانا ہوتا ہے اسکی عمر نوٹسز کے جواب دینے میں یا عدالتوں میںاسٹے آرڈر لینے میں گزر جاتی ہے ۔ بزنس کی ترقی پر وہ دن میں صرف دوگھنٹے ہی کام کرسکتا ہے باقی گھنٹے سرکاری نوٹسوں کاجواب دینے اور حساب کتاب درست کرنے میں لگے رہتے ہیں کیونکہ اس نے بھی ٹیکس بچانا ہوتا ہے جناب حسین نواز نے فرمایا ہے کہ قانونی طریقے پر ٹیکس بچانا کوئی جرم نہیں اور یہ بات درست بھی ہے صرف غریب آدمی جو ایزی لوڈ کرواتا ہے وہ100روپے پر23روپے کا ٹیکس ایڈوانس میں ادا کردیتا ہے کیونکہ اسے قانونی طور پر ٹیکس بچانا نہیں آتا مجھے امید ہے کہ جلد ہی اسکی بھی کوئی ترکیب نکل آئے گی اور لوگ اپنے پیاروں سے لمبی باتیں کرسکیں گے ۔ تحریک انصاف کے امیدوار امجد اللہ نے راتوں رات پینترا بدلا اور بیچارے عمران اسماعیل ہاتھ ملتے رہ گئے لائنز ایریا میں متحدہ کا امیدوارسات فیصد ووٹ لیکر جیت گیا میڈیا نے بڑی باتیں بنائیں مگر کیا ہوتا ہے اگر وہ ساٹھ فیصد ووٹ لیتا توبھی جیتنا ہی تھا اچھا ہوا سات فیصد پر جیت گیا اور لوگوں کوووٹ ڈالنے کی زحمت نہیں دی ۔ لوگ بھی سمجھدار ہیں انہوں نے سوچا کہ اس نے جیتنا تو ویسے ہی ہے ووٹ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے
دردمنت کش دوانہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا ، برا نہ ہوا
( غالب)
اب لوگ بڑی دلچسپی سے ٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہیں اور اخبار بھی بڑی توجہ سے پڑھتے ہیں اور اس تلاش میں ہیں کہ پاناما لیکس تو پرانی ہوگئی اب نئی کیا آنے والی ہے ۔ دل تھام کر بیٹھیں بہت جلد نئی خبریں بھی آنے والی ہیں ۔ میں گزشتہ کالم میں پیش گوئی کرچکا ہوں اب تو سیاست کا ٹی۔ ٹوئنٹی شروع ہوگیا ہے اور کوئی پتہ نہیں کہ چار گیندوں پر چار چھکے لگ جائیں ابھی تو پاناما لیکس کا پہلا چھکا لگا ہے اس سے پہلے سنی تحریک کادھرنا اور پی آئی اے کادھرنا ’’چوکے‘‘ تھے اب تین مزید چھکوں کا انتظار ہے اور مزہ توتب ہے کہ ایک ہی ’’ اوور‘‘ میں لگیں ۔ لوگوں نے نجومیوں کو ہاتھ دکھانے شروع کر دیئے ہیں اور سیاسی نجومیوں کے روزگار میں اضافہ ہورہا ہے وہ تمام تھکے ہوئے سیاستدانوں کو لکیروں کا حال پڑھ کر بتارہے ہیں اور ان کے تفصیلی زائچے بھی بناکر انہیں بتارہےہیں کہ پاور ملنے والی ہے ۔ ہمارے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صاحب توخود بھی نجومی ہیں اور اچھا خاصہ زائچہ بنالیتے ہیں ۔ ہاتھوں کی لکیریں بھی پڑھتے ہیں ۔ خدا جانے اس دفعہ انہوں نے کیا پڑھا ہے رحمان ملک صاحب کے ہاتھوں کی لکیریں بھی بہت اچھی ہیں ۔ دیکھئے آگے کیا ہونے والا ہے ۔ لوگ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے بچکانہ مطالبے کررہے ہیں انہیں خبر نہیں کہ گیا ہوا مال واپس کبھی نہیں آتا ۔ اس سے پہلے بھی سیف الرحمان کے زمانے میں حکومت نے بے پناہ کوششیں کیں خرچہ بھی کیا مگر حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوا اب بھی ویسا ہی ہوگا بہتر ہے کہ صبر اور شکر کیا جائے اور جوبچ گیا ہے اسی پر گزارہ کیاجائے آخر میں مجروح سلطان پوری کے حسب حال اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں
آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ
ہوہی جائیگی کوئی جینے کی تدبیر نہ دیکھ
یہ ذرا دور پہ منزل، یہ اجالا، یہ سکوں
خواب کودیکھ ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن ، جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پائوں کی زنجیر نہ دیکھ