• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا قومی بجٹ گزشتہ روز ملک ہی نہیں پوری دنیا کو درپیش بدترین معاشی حالات میں پیش کیا گیا۔ قومی معیشت یوں تو اس دور میں شروع ہی سے سنگین چیلنجوں سے نبرد آزما چلی آ رہی ہے لیکن پچھلے چند ماہ کے دوران کورونا کی عالمی وبا کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سخت منفی اثرات کے باعث اس کا گراف جس تیزی سے نیچے آیا ہے، اس کی کوئی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس صورت حال کا بھرپور اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ یہ تاریخی خسارے کا بجٹ ہے جس کی مالیت 3437ارب روپے ظاہر کی گئی ہے جبکہ وفاقی میزانیے کی کل مالیت 71کھرب 37ارب روپے ہے۔ ایک ٹریلین یعنی ایک ہزار ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف مقرر کیے جانے کے باوجود کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے جس پر عمل کر لیا گیا تو یقیناً یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، موجودہ حالات میں جس کا جواز بہر طور موجود ہے۔ درآمدی سگریٹ، سگار، انرجی ڈرنکس اور ڈبل کیبن گاڑیوں جیسی جن اشیا پر ڈیوٹیوں میں اضافہ کیا گیا ہے وہ زندگی کی بنیادی ضروریات میں شامل نہیں لہٰذا عام آدمی ان کی مہنگائی سے براہِ راست متاثر نہیں ہوگا جبکہ عوام کی سہولت اور معاشی سرگرمی بڑھانے کی خاطر سیمنٹ، سریا، پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل فون، آٹو رکشا، موٹر سائیکل سمیت 200سی سی تک کی گاڑیاں، کپڑے، جوتے، ایل ای ڈی لائٹ، سینٹری ویئرز سستے کر دیے گئے اور شادی ہالوں پر عائد وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ سروس سیکٹر، ٹول مینوفیکچرنگ کیلئے ٹیکس میں کمی، انشورنس پریمیم، ڈیلرز اور آڑھتیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم، ہوٹل انڈسٹری کیلئے ٹیکس میں دو تہائی کمی کے علاوہ کھیل، چمڑا، ٹیکسٹائل، ربڑ، کھاد، بلیچنگ اور گھریلو اشیا میں استعمال ہونے والے 20ہزار درآمدی آئٹمز پر کسٹم اور ایکسائز ڈیوٹیاں ختم کر دی گئی ہیں، اسمگلنگ روکنے اور مقامی صنعت کو فروغ دینے کیلئے ہاٹ رول کوائل، کمبل اور پیڈلاکس وغیرہ پر ڈیوٹیوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ غیر منقولہ جائیداد کی فروخت پر آمدن میں ٹیکسوں میں ریلیف کیلئے کیپٹل گین کی مدت کو 8سال سے کم کرکے چار سال کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اس بجٹ میں آئندہ مالی سال کیلئے اقتصادی ترقی کا ہدف 2.1فیصد، کرنٹ اکائونٹ خسارے کا ہدف 4.4فیصد، مہنگائی کی شرح کا متوقع ہدف 6.5فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ قومی ترقیاتی بجٹ 1324ارب روپے کا ہے جس میں سے وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے 650ارب اور صوبوں کیلئے 674ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سود کی ادائیگی کیلئے 2946ارب روپے، آئندہ مالی سال کیلئے ایف بی آر ٹیکس ریونیو کا ہدف 4963ارب روپے، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610ارب روپے مقرر کیا گیا۔ تعلیم کے شعبے کیلئے 99ارب، 82توانائی منصوبوں کے 76ارب، ہائیڈل منصوبوں کیلئے ایک کھرب 14ارب، بھاشا اور دیگر ڈیموں کیلئے 69ارب، بجلی کے منصوبوں کیلئے 180ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کورونا کے جس غیر معمولی چیلنج کا قوم کو سامنا ہے اس کے تدارک کیلئے 1200ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے بجٹ اہداف کو قابل حصول قرار دیا ہے تاہم اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ دوسری جانب قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے بجٹ کو عوام دشمن اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ کاروباری برادری اور ماہرین نے بجٹ اہداف کے قابل حصول ہونے پر بالعموم تحفظات اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کورونا کی صورتحال اور ہمالیائی خسارہ پورا کرنے کیلئے چند ماہ کے اندر حکومت منی بجٹ لانے پر مجبور ہوگی اور کسی نہ کسی شکل میں بھاری ٹیکس عائد کیے جائیں گے جن سے عام آدمی اور کاروباری برادری کی مشکلات کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ تاجر برادری کے رہنماؤں کا یہ تبصرہ قومی معیشت کے حکمت کاروں کی خصوصی توجہ کا مستحق نظر آتا ہے کہ بجٹ کو ٹیکس فری تو کہا جا سکتا ہے مگر بزنس فرینڈلی نہیں۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بیروزگاری کا جو یقینی طوفان سر پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے اسے روکنے کے حوالے سے کوئی سوچ بجٹ میں موجود نہیں۔ صنعتوں کی بحالی کی خاطر مؤثر اقدامات اور کورونا اور لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے لاکھوں چھوٹے تاجروں کیلئے کسی ریلیف کا اعلان نہیں کیا گیا جبکہ حکومت دو سال سے معیشت کی اصلاح کے نام پر غیر مقبول اقدامات کر رہی ہے۔ کاروباری برادری کے ممتاز نمائندوں کے مطابق حکومت کو صنعتوں کیلئے مراعاتی پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ ان کا یہ مطالبہ حکومت کیلئے فوری طور پر قابل غور ہونا چاہیے کہ برآمد کنندگان کے ریفنڈز خودکار نظام کے ذریعے ایک ہفتے میں ادا کیے جائیں کیونکہ سرمایہ رک جانے کی صورت میں نہ صنعتیں چلیں گی نہ ایکسپورٹ ہو پائے گی۔ پاکستانی قوم آج جن شدید بحرانی حالات سے دوچار ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پچھلی سات دہائیوں میں ایسی صورتحال کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ پچھلے دو سال کے دوران معیشت کو سنبھالنے کی کوششیں جو پہلے بھی کچھ زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی تھیں کورونا اور لاک ڈاؤن نے انہیں بھی بری طرح متاثر کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل بھی ایک نئی ابتلا کی صورت میں ملک پر مسلط ہیں۔ اس کے باوجود مایوسی کی کوئی بات نہیں کیونکہ زندہ قومیں ہر مشکل سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن اس کے لیے قومی اتحاد و یگانگت اور اجتماعی فلاح کی خاطر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی اہلیت رکھنے والی انتقامی جذبات سے پاک کشادہ دل قیادت کا برسر کار ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ قیادت اس امر کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھ کر درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے پیش رفت کرے تو ان شاء اللہ کامیابی یقینی ہوگی۔

تازہ ترین