گزشتہ 30سال میں لندن میں بڑے بڑے سیاستدانو ں کے محلات کا چرچا رہا ہے،سب سے پہلے متحدہ کے بانی الطاف حسین کے 10ملین کے اجویئر میں مکان کا انکشاف ہو ا۔انہوں نے کہا کہ یہ مکان مجھے میرے چاہنے والوں نے چندہ دے کر دلایا ہے۔بات مہاجروں کی تھی جو لندن میں آباد تھے سب نے مان لی۔ پھر سرے محل کا ذکر آیا تو بینظیر صاحبہ نے ماننے سے انکار کر دیا۔میڈیا نیا نیا آزاد ہو رہاتھا،کچھ دل جلے لندن جا پہنچے اوربڑی بڑی تصاویر شائع کر دیں مگر کسی نے OWNنہیں کیا، صرف خبروں تک معاملہ کھلتااور دبتا رہا اور پھر قوم نے دیکھا وہ بھی اپنی موت آپ مر گیا۔ قوم خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی اور پی پی پی والے تردیدیں کر تے رہے۔حالات چلتے چلتے مسلم لیگ (ن)کے دور میںداخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا،محترم نواز شریف کے لندن میں فلیٹوں کا ذکر شروع ہوا پہلے انکار پھر قطریوں کے خطوط،پھر قومی اسمبلی میں سعودیہ میں جلا وطنی کے دوران ملنے والے اسٹیل کے کارخانہ کو فروخت کر کے پیسہ لندن بھیجنے کا اعتراف، پھر صاحبزادے کا ایک ٹی وی انٹرویو میںبر ملا ہامی بھرنا، پھر دوسرے صاحبزادے کا انکار، پھر صاحبزادی مریم نواز کا نیب کو انکاری بیان،پھر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تو مجھے کیوں نکالا کی تکرار سننے میں آئی۔آج کل یہ خاندان مع اہل و عیال ایون فیلڈکے فلیٹوں میں غربت کی زندگی گزار رہاہے۔ نیب حسن نواز اور شہباز شریف کے ایک صاحبزادے سلمان شہبازکو عدالت میں لانے میں لگاہوا ہے،بظاہر لندن کے قوانین کے مطابق شاید ہی نیب والے کامیاب ہو سکیں کیونکہ نوازشریف کو بھی چپ لگ چکی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے صرف ایک وعدہ پورا کر دکھایا، وہ یہ کہ بڑے بڑوں کو جیل میں ڈالا، پھر نکالا اور پھر ڈالا اور اب سب ایک ایک کر کے نکل چکے ہیں۔کچھ گھروں میں اور کچھ لندن میں مقیم ہیں اور سب چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں وقت نے کروٹ لی اوردیکھتے ہی دیکھتے آٹاچور،چینی چور، خود پی ٹی آئی میں پیدا ہوئے میڈیا کو موقع ملا لوگ ماضی کے اربوں،کھربوں کے گھپلابازوں کو بھولنے لگے۔نیب اب نئے گھپلے بازوں کی طرف لگ گیا سب پر ہاتھ ڈالا گیا مگر کسی ایک کو جیل جانے کی زحمت نہیں دی گئی۔ اب گھبرانا نہیں سے کسی کو نہیں چھوڑوں گا کانعرۂ تبدیلی اپنی موت آپ مر گیا۔ سب ایک ایک کرکے چھوٹنے لگے کیونکہ حکومت ہلنے کا ڈر لگنے لگا تھا اور جو صاحب کرامت تھے وہ اپنا جہاز پکڑکر آج کل لندن میں اپنے دس پندرہ ایکڑ کے مکان میںسستانے اورمعروف بہانہ‘ چیک اپ کروانے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ اوپری آسمانی،سلطانی آفتیں ٹھہرجائیں تو وہ آئندہ کا لا ئحہ عمل سوچیں۔ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کسی کو نہیں چھوڑوں گا کہنے والے محترم وزیر اعظم سچ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ابھی اپنے ان ہو نہاروں کو پکڑا بھی کب ہے، جو وہ چھوڑیں گے۔چوہدری برادران اور سابقہ وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بھی نیب میں مطلوب ہیں مگر ابھی تک ان پر بھی ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔
اب ایک اورنئے فتنے نے جنم لیا ہےیعنی پیٹرول حکومت نے عالمی منڈی کے گرتے داموں کی وجہ سے دام کم کیے تو پیٹرول مافیا نے فوراًاپنا کام دکھا کر پیٹرول غائب کر دیا۔اب لوگ چینی چور،آٹا چور،حتیٰ کہ کورونا کو بھول کر پیٹرول پمپوں کی لائنوں میں بغیر ماسک پہنے لگے ہوئے ہیں۔ایک آدھ کو جرمانہ ہو گیا جو آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔یہ پہلی مافیا ہے جس میں ماضی،حال اور مستقبل کے سیاست دان ملوث نہیں ہیں۔یہ بھی کورونا کی مانند آئے اور پورے ملک میں چھا گئے ہیں،بے چاری حکومت کس کس سے نمٹے وہ خود اسکینڈلوں سے نڈھال ہو چکی ہے۔اب اسی مصیبت میں بجٹ بھی پیش ہو ا۔کہتے ہیں کوئی ٹیکس نہیں لگایا مگر حزب اختلاف جو ماضی میں اس سے زیادہ بُرے بجٹ پیش کر تی رہی ہے۔جب کہنے کو کوئی مثبت با ت نہیں ملی تو سارا غصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے پراتا ررہے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن البتہ اپنے نیزے اور تلواروں کے زنگ اتارنے میں لگ گئے ہیںجنہیں 2سال سے زنگ لگا ہوا ہے۔قوم کورونا کی واپسی سے پریشان ہے۔ سیاست دان اپنے بقایا تیروں کو آزمانے کیلئے بجٹ کا سہارا تلاش کر رہے ہیں۔حکومت کے عا قبت نا اندیش وزرا اپنی نا اہلیوں سے اپنے اتحادیوں سے ناروا سلوک بھی جا ری رکھے ہوئے ہوں۔ حال ہی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اختر مینگل 2سال سے اپنے کئے گئے معاہدوں پر عمل در آمد کرانے کا واویلا کر رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جب پانی سر سے اوپر جانے لگتا ہے تو وہ پھر بھاگتے ہیں اور منا کر لے آتے ہیں۔ بس یہی کام رہ گیا ہے ان کے وزرا کا، اسی کا نام تبدیلی ہے۔