21جون سال کا طویل ترین دن ہے جسے قدرت نے بینظیر بھٹو کی پیدائش کیلئے منتخب کیا۔ عام طور پر کسی کے دنیا میں آنے پر روایتی انداز میں خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اسے دنیا میں پہچان کیلئے کوئی نام دیا جاتا ہے اور اس نام کی معنویت اور تقاضوں کو سمجھے بغیر عمر گزار دی جاتی ہے لیکن اگر دنیا میں کچھ خاص لوگ اس زندگی کو صرف ذاتی خواہشوں کے حصول کا ذریعہ نہ سمجھیں تو وہ حقیقی علم کے حصول کیلئے کوشاں رہتے ہیں کہ میں کون ہوں، کیوں ہو اور کہاں سے ہوں؟
اگر انسان اپنے حالق کے ساتھ اپنے عہد کو یاد رکھے اور اس کے قرب کا متمنی ہو تو وہ کبھی اپنی راہ سے بھٹک نہیں سکتا۔ بینظیر کا نام ان کے والد نے انہیں دیا اور بھٹو صاحب کی ذہانت اور دور اندیشی کا زمانہ معترف تھا۔ بیٹی نے نام کی لاج ایسی رکھی کہ ہر کردار میں بینظیر ثابت ہوئیں۔
بینظیر بھٹو ایک روایتی جاگیردار خاندان کی خاتون کے طور پر ایک آسودہ زندگی گزار سکتی تھیں مگر بھٹو صاحب نے بینظیر کے بیدار ضمیر کو پرکھ کر جو نام رکھا اور جو تربیت کی اس نے بینظیر بھٹو کو اَنگنت صدیوں کے تاریک رسم رواج سے باغی کر دیا۔ بینظیر زندگی بھٹو کی بیٹی کا انتخاب کر چکی تھی۔ بچپن میں والد کے سنائے قصے کہانیاں جن میں سچائی کو برائی پر ہمیشہ فتح نصیب ہوئی، بینظیر کردار سازی کا ذریعہ بنے۔
’’چیلنجز کا مقابلہ کرو، مسلط کردہ ہر بگاڑ کے خلاف لڑو، باطل پر غلبہ حاصل کرو، آیا تم مضبوط اعصاب کی مالک ہو یا بزدل، یہ انتخاب تمہارا اپنا ہے اور اپنی تقدیر کی تشکیل تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے‘‘۔
بچپن ہی سے سیدہ زینبؓ کا کردار بینظیر بھٹو کیلئے بہت متاثر کن تھا کہ کس طرح انھوں نے امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد حسینیت کا پیغام لوگوں تک پہنچایا، لہٰذا روشن کردار نے ازل ہی سے بینظیر بھٹو کو کنیزِ کربلا بنا دیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی پہلی خاتون تھیں جنہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ اور امریکہ بھیجا گیا۔ اس موقع پر بھٹو صاحب اپنی بیٹی کو اپنے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش لیکر گئے، اب باپ بیٹی سے یوں ہم کلام ہوا ’’تم امریکہ میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھو گی جو تہمارے لیے حیرت کا سبب بنیں گی اور کچھ ایسی بھی جو ذہنی صدمے کا باعث بنیں گی لیکن مجھے اُمید ہے کہ تم میں حالات سے سمجھوتا کرنے کی صلاحیت ہے۔
سب سے بڑی چیز اپنے مقصد میں جدوجہد ہے، پاکستان میں بہت کم لوگوں کو تمہارے جیسا موقع میسر آتا ہے اور تمہیں اس کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ مت بھولو کہ تمہارے بھیجے جانے پر جو خرچہ اُٹھے گا وہ ہماری اپنی زمینوں سے ہے، یہ ان لوگوں کی محنت ہے جو خون پسینہ ایک کرکے کماتے ہیں اور ان زمینوں پر کام کرتے ہیں۔
تمہیں ان کا قرض چکانا ہے اور یہ قرض تم چکا سکتی ہو، اگر بفضل خدا اپنی تعلیم کو ان لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے پر صرف کرو‘‘۔ باپ کے الفاظ کی تاثیر بی بی کی روح میں سرایت کر گئی۔علم و آگہی میں بھی بینظیربے نظیرر ہی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے علم حاصل کیا اور پھر ان میں اور دوسری درسگاہوں میں اپنے خطابات کے ذریعے شعور کے چراغ جلائے رکھے۔
بینظیر بھٹو اپنے رب کے ساتھ کیے گئے عہد سے کبھی بھی غافل نہ ہوئیں اور اس عہد کو آگے بڑھانے کیلئے انہوں نے اپنے باپ، رہنما اور Mentorکے ساتھ اس عہد کو کچھ یوں ترتیب دیا ’’میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہاری ذہنی ہم آہنگی کیلئے اپنی بھرپور کوشش کروں گا تاکہ تمہارا مستقبل درخشاں ہو جائے۔ اس کے بعد تمہیں اپنے پائوں پر خود کھڑا ہونا ہے۔ میں اپنی بڑی بیٹی کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔
مشکل یہ ہے کہ تم بھی زود رنج مزاج رکھتی ہو اور تمہاری آنکھوں سے فوراً آنسو گرنے لگتے ہیں جیسے میری اپنی آنکھوں سے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں کا خمیر ایک ہے۔ آئو ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کا معاہدہ کرلیں۔ تم ایک متحرک طبیعت کی مالک ہو۔
ایک متحرک انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ صحرا کو حدت کے بغیر اور پہاڑوں کو برف کے بغیر دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ تم اپنی دھوپ کی چمک اور اپنی قوس قزح اپنی باطنی اقدار اور اخلاقیات میں تلاش کرو گی اور یہیں تمہیں کا ملیت کا حصول ممکن ہوگا‘‘۔
باپ اور رہنما کے بغیر زندگی کا تصور محال تھا مگر بینظیر کے عہد نے انہیں اپنا غم بھلانے کا حوصلہ دیا اور بی بی کچھ یوں سوچنے لگیں ’’میں سوچنے کی حس رکھتی ہوں اس لئے میرا وجود ہے میں اس وقت بھی سوچنے میں محو ہو جاتی ہوں جب سوچنا نہیں چاہتی لیکن جوں جوں دن گزر رہے ہیں مجھے یقین نہیں رہتا کہ میرا وجود بھی ہے یا نہیں۔ صحیح معنوں میں وجود کا مطلب ہے کہ کوئی فرد تبدیلی لا سکتا ہے، کوئی عمل کر سکتا ہے اور اس کے ردعمل کا باعث بن سکتا ہے۔
میں محسوس کرتی ہوں کہ میں کچھ بھی عمل کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ جہاں میرے نقوش موجود ہیں۔ میرے والد کے نقوش ہی میری کارکردگی کے محرک ہیں استقلال و وفاداری، عزت اور اصول۔ اب ایک دہشت پورے سماج پر محیط ہے۔
میرے والد کا نظریہ میرا نظریہ ہے میں نے ان کی قبر کے سرہانے محسوس کیا کہ ان کی روح کا اعتماد اور قوت مجھ میں سرایت کر گئی تھی، اسی لمحے میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں پاکستان میں جمہوریت آنے تک چین سے نہیں بیٹھوں گی۔ میں نے پختہ عہد کیا کہ اُمید کی جو شمع میرے والد نے جلائی ہے اسے ہمیشہ تاباں اور زندہ رکھوں گی‘‘۔
پھر دنیا نے بینظیر بیٹی کو 30سالہ بینظیر جدوجہد کے ذریعہ بینظیر قیادت کے جوہر دکھاتے ہوئے دیکھا، اس دنیا میں بہت کم افراد کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ سماج میں تبدیلی لا سکیں، اسے نئے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں۔ محروم لوگوں کو روشن مستقبل کی اُمید دلا کر مساوات کا استعارہ بن سکیں۔
بینظیر بھٹو نے عالم اسلام کی پہلی کم عمر ترین خاتون وزیراعظم بن کر بینظیر مثال قائم کی۔ وہ پاکستان میں ترقی، ابلاغ، تعلیم اور ٹیکنالوجی کی علامت بنیں، دنیا کے اربوں لوگوں کی امیدوں کا مرکز اور مستقبل کی درخشندہ روایتوں کی آئینہ دار اور دنیا بھر کیلئے شعور جدوجہد اور قربانی کا استعارہ۔
اپنے خالق اور اپنے رہنما سے عہد وفا نبھاتے نبھاتے بینظیر شہادت دے کر ثابت کرگئیں کہ میں کون ہوں، کیوں ہوں اور کہاں سے ہوں!