تحریر:سردار عبدالرحمٰن خان ۔۔بریڈ فورڈ
پاکستان کی مختصر تاریخ میں کئی اندوہناک واقعات اور حادثا ت رونما ہوئے۔ پہلا وزیراعظم لیاقت باغ کے مقام پر ایک ظالم اور گمنام قاتل کی گولیوں کا نشانہ بنا۔ دوسرے وزیراعظم کا قتل خودمارشل لا کے غلط اور متعصب الزامات اور امرانہ دبائو کے تحت سرزد ہوا جسے بعد میں ججز نے خود (Judicail Murder) ’’عدالتی قتل‘‘ کہا۔ تیسرا قتل بھی اسی شہر بلکہ اسی مقام پر کسی نامعلوم فرد یا افراد نے پس پردہ سازش کے تحت کیا۔ ذرا غور کیجئے ایک نوزائیدہ ملک میں تین انتہائی پڑھے لکھے، تجربہ کار، سیاستدانوں کواس بے دردی سے چھین کر ملک اور قوم کو ان کی ولولہ انگیز قیادت سے محروم کردینا کتنا بڑا المیہ ہے۔بے نظیر بھٹو شہید، دختر مشرق عوام میں ہر دلعزیز تھیں۔ وہ بہادری سے جمہوریت کی جنگ لڑ رہی تھی اور انسانی حقوق کے لیے دن رات جدوجہد میں مصروف تھی۔ ان کو کسی درندہ صفت، پتھر دل انسان نے اس وقت گولی کا نشانہ بنایا جب ان کو جلا وطنی سے پاکستان واپسی پر صرف ستر دن گزر چکے تھے۔ اس بے رحمانہ اور سفاکانہ قتل کے پیچھے شاید کوئی فرد یا افراد نہ ہوں، بلکہ کوئی بڑی تحریک، گہری سازش یا اندرونی اور بیرونی ملی بھگت کا نتیجہ ہو۔بے نظیر بھٹو شہید نے جس عزم سے پاکستان کو ترقی کے افق پر لے جانے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ اس کو قاتل کی گولیوں نے بریک لگاکر روک دیا۔ پاکستان کی شہرت کو دنیا میں ناقابل نقصان پہنچا۔ آمریت کی لگا تار مارچ کو روکنے کے لیے بے نظیر بھٹو شہید نے نامساعد حالات میں مقابلہ کیا۔ انسانی حقوق، جمہوریت اور آئین کی خاطر وہ جو منصوبہ بندی کررہی تھیں، قاتلوں نے اس منصوبہ بندی کو منہدم کردیا۔ بہت کم لوگ ہیں جو ماں، باپ اور بھائیوں کی قربانی کے بعد بھی سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی ہمت اور سکت رکھتے ہیں۔ پھر پاکستان میں جہاں سیاست میں مردوں کی اکثریت، اجارہ داری اور کلچرل برتری کی رسومات کے بندھن مضبوطی سے قابض ہیں۔ وہاں پر بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی نسوانیت کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے حالات کا مقابلہ کیا۔ عوام نے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی صلاحیتوں کو لبیک کہہ کے ساتھ دیا۔اپنے لوگ اس قومی ہیرو اور ہر دلعزیز شخصیت کی شہادت پر تو غمگین اور پریشان تھے ہی مگر بے نظیر بھٹو شہید کی موت نے دنیا کے بڑے بڑے لیڈران کو بھی پریشان اور خوف زدہ کردیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اقوام متحدہ کا اجلاس طلب کرکے ان کے قتل ہونے پر بحث کی۔ امریکی صدر بش نے پریس کانفرنس طلب کرکے اپنی ہمدردی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تشدد پسند عناصر کی مذمت کی۔ پوری دنیا کے حکمرانوں نے اپنے تعزیتی بیانات دیئے۔ دنیا کی صحافی برادری نےاداریے، آرٹیکلز، تجزیے اور تبصرے لکھ کر بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی، علمی، عقلی اور معاشرتی بصیرت اور بصارت کی صفات بیان کیں۔ بے نظیر بھٹو شہید کے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہم جماعتی، ایلن ڈنکن، وکٹوریہ سکو فیلڈ اور طارق علی نے بے نظیر بھٹو کو انتہائی خوب صورت الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ یاد رہے کہ ایلن ڈنکن مس بے نظیر بھٹو شہید کے آکسفورڈ یونیورسٹی کی صدارتی انتخاب میں مہم کے منیجر تھے۔ پرنسپل لیڈی مارگریٹ ڈاکر فرانسس لینن نے کہا۔ ’’میں بے نظیر بھٹو کے قتل کا سن کر خوف زدہ ہوگئی ہوں۔ بے نظیر بھٹو انتہائی ہوشیار طالبہ سمجھی جاتی تھی اور اس نے یہاں بہت احباب بنائے۔ بریڈ فورڈ کونسل کے کرس ہاپ سکن اور این گرین وڈ اور جینت سنڈر لینڈنے، ٹوری، لیبر اور لیبرل پارٹیوں کی طرف سے گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ پورے یوکے میں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی نے تعزیتی اجلاس منعقد کیے۔بے نظیر بھٹو پوری طرح اپنے خلاف خطرات سے آگاہ تھیں۔ اکتوبر میں اپنی جلا وطنی کے خاتمے پرانہوں نے عوامی اجلاسوں میں ان خطرات اور خدشات کا اپنی تقریروں میں ذکر بھی کیا تھا، لیکن انتہائی دلیر اور پکے ارادے کی مالک تھیں اور یہ صفت بھٹو خانوادے کے ورثے میں ملی ہے۔ وہ شک کی انگلی مسلسل ایک خاص اندرونی اور بیرونی سازش کی طرف اٹھاتی رہی ہیں۔ حکومت وقت نے اس آگاہی کے باوجود خاطر خواہ حفاظتی اقدامات نہ کیے۔ انتہا پسند، قدامت پسند اور مخفی طاقتیں بے نظیر بھٹو شہید کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی برملا مخالفت کرتے رہے۔ ان پر18اکتوبر کے قاتلانہ حملے سے ان الزامات کی صاف طور پر تصدیق کے باوجود بھی حکومت وقت نے غیر معمولی حفاظتی انتظامات نہ کیے، لیکن پھر بھی بے نظیر بھٹو شہید اپنے طے شدہ پروگرام سے پیچھے نہ ہٹیں۔ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور جمہوریت کو موقع دینے کے لیے انتخابی مہم جاری رکھی اور اپنی جان کی قربانی دے دی۔بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی مصائب و الام میں گزری۔ خوشی کم اور غم کے ڈھیر اور طوفان سامنے آئے ان کی اپنی موت بھی انتہائی المناک تھی۔ وہ مسلمان ممالک کی تاریخ میں پہلی سربراہ حکومت بنیں اور
پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ مصر کے کچھ مذہبی اسکالرز نے خاتون کے سربراہ ملک ہونے کے خلاف فتوے بھی صادر کیے۔ لیکن دنیا نے ان کو مانا، ملک نے ان کو مانا، جمہوریت نے انہیں قبول کیا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو ملک سے باہر رہتے ہوئے بھی یکجا رکھا۔ ان کے خلاف سازشیں بھی جاری رہیں۔ اندرونی اور بیرونی بھی۔ ان سازشوں کی وجہ سے دو مرتبہ بلاجواز سبکدوش بھی کردیا گیا، لیکن دنیا کے سامنے یہ خاتون مشرق اپنی سوچ، اپنی سیاسی اپروچ، اپنے لباس، اپنے کلچرل، اپنی روشن خیالی اور شفاف نقطہ نظر اور خیالات و تفکرات کی وجہ سے مشہور ہوئیں۔ انہوں نے جمہوریت کی جنگ لڑی اور اپنی بہادری اور جرات کی مثال قائم کی۔ انہوں نے مردوں کی دنیا میں اپنی نسوانیت کو کمزوری نہ بننے دیا، بلکہ دلائل و برہان سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 26سال کی عمر میں ایک قدآور باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا، لیکن انہوں نے وہ وعدہ نبھایا جو انہوں نے اپنے عظیم باپ سے جیل کی کال کوٹھڑی میں کیا تھا۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے4اپریل1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو شہید سے آخری ملاقات میں کہا تھا۔ ’’بابا! میں آپ کے مشن کو آگے لے کر چلوں گی۔‘‘ اور انہوں نے یہ وعدہ بہادری اور جرات سے نبھایا۔ یہاں تک کہ اپنی جان قربان کردی۔ مشہور کالم نگار اور دانشور عطاء قاسمی نے لکھا۔ ’’توجہ دلانے کے باوجود حکومت نے سیکورٹی کا مناسب انتظام کیوں نہیں کرایا ؟ میرا قلم ان کو ’’شہید‘‘ اور ’’مرحوم‘‘ لکھتے ہوئے کانپتا ہے۔ مجھے سانس لینے کے لیے ’’ان ہیلر‘‘ کی ضرورت محسوس ہوئی۔‘‘ سید انور قدوائی نے لکھا۔ ’’خوش بخت وہ لوگ ہیں جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ نبض تھم گئی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ایسی ہی ایک ہستی تھیں، ان کی شہادت کی خبر سن کر کور آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے۔‘‘ محمد شام نے لکھا۔ ’’نہ پیدائش عجوبہ ہے اور نہ ہی موت انہونی بات ہے، مگر جب عظیم لوگ اس دنیا سے ناگہانی طور پر اٹھ جاتے ہیں تو یہ دنیا بالکل اجڑ جاتی ہے۔‘‘ کشور ناہید محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں لکھتی ہیں۔ ’’ان کے سر پر دوپٹے کو پورے یورپ نے نئے اور خوب صورت فیشن کے طور پر قبول کیا۔ وہ دوپٹہ اپنے سر سے ڈھلکنے نہیں دیتی تھیں۔‘‘بے نظیر دختر مشرق تھیں، مگر انہوں نے مغرب میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ بی بی سی اور سی این این نے ان کی شہادت پر گھنٹوں اور دنوں تک تبصرے نشر کیے۔ گلوبل سطح پر سربراہوں اور سفارت کاروں نے تعزیتی پیغامات دیے۔ آج ان کا یوم پیدائش منانے والوں کو یہ احساس ہورہا ہے کہا ن کے بے وقت چھن جانے کا دنیا کو کتنا نقصان ہوا۔ ان کو اور وقت ملتا تو شاید پاکستان آج دنیا میں صفت اول کے ممالک میں ہوتا۔