پاکستان میں بجٹ بنانا کبھی بھی آسان نہیں رہا ؛ لیکن رواں سال تو یہ بطور ِخاص بہت مشکل ہے ۔کوویڈ کی وجہ سے معیشت ڈگمگارہی ہے۔ نیز ٹیکس جمع کرنے والے محکمے کی مایوس کن کارکردگی اور گزشتہ دو برسوںکے دوران ہونے والے ریکارڈ خسارے کی وجہ سے حکومت کے پاس آپشنز محدود ہیں۔ اس پس ِ منظر میں ہمیں نئے بجٹ کا جائزہ لینا ہے۔
بجٹ اپنے دور کے معاشی حالات اور حکومت کی مالیاتی سکت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ صحت مندانہ معاشی شرح نمو کے دور کا بجٹ معاشی گراوٹ کے دور کے بجٹ سے مختلف ہوتا ہے ۔ متعددجائزے ہمیں بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال ہماری معاشی شرح ِنمو1.9 فیصد سالانہ رہی (ہماری آبادی کی افزائش 2.4 فیصد سے بھی کم )۔ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ رواں سال یہ 0.4 فیصد تک کم ہوجائے گی۔ آزاد معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال ہماری معاشی شرح نمو منفی 1.5 فیصد رہے گی ۔ اس پر قہر یہ ہے کہ گزشتہ سال ہمیں جی ڈی پی کا 9.1 فیصد ریکارڈ خسارہ ہوا۔ امسال یہ خسارہ دس فیصد سے متجاوز ہونے کی توقع ہے ۔پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کے پانچ برسوں کے دوران اوسط خسارہ چھ فیصد سے کم رہا ۔
حالیہ ریکارڈ خسارے کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ موجودہ حکومت کی محصولات میں اضافہ کرنے میں ناکامی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے پانچ سالہ دور میں ایف بی آر کے حاصل کردہ محصولات میں 14.5 فیصد اضافہ ہوا۔ اُن پانچ برسوںکے دوران محصولات 1946 ارب ر وپے سے بڑھ کر 3840 ار ب روپے ہوگئے ۔ اگر موجودہ حکومت اس شرح کو برقرار رکھتی تو گزشتہ برس ایف بی آر 4400 ارب روپے جمع کرسکتا تھا۔ تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران ایف بی آر 3840 ارب روپے سے نہیں بڑھ سکا ہے۔ رواں سال 700 ارب کے نئے ٹیکسز کا اضافہ کرتے ہوئے ایف بی آر نے 5555 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ موجودہ رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ جنوری تک محض 4450 ارب روپے جمع کرپائے گا۔ گویا اپنے طے کردہ ہدف سے 1100 ارب روپے کم۔ اب کوویڈ کی وجہ سے ہدف میں ترمیم کرتے ہوئے اسے 3908 ارب روپے کرلیا گیا ہے۔کچھ تجزیہ کار یہ کہتے ہوئے غلطی کرجاتے ہیں کہ ایف بی آر کے محصولات میں گراوٹ کی وجہ درآمدات میں کمی ہے کیونکہ ہمارے نصف کے قریب محصولات بندرگاہ سے کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور وودہولڈنگ ٹیکس سے اکٹھے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران درآمدات میں ڈالروں میںکمی ہوئی ہے لیکن کرنسی کی قدر میں زبردست کمی کی وجہ سے ان کا روپے میں حجم بڑھا ہے ۔ اس طرح درآمدات کی مد میں جمع ہونے والے محصولات کے علاوہ ٹیکسز جمع کرنے کا حجم بڑھنا چاہیے تھا۔ خسارے میں اضافے کی دوسری وجہ پاکستان تحریک ِانصاف کی اخراجات پر قابو پانے میں ناکامی ہے۔ اگر موجودہ حکمران جماعت سادگی کے اپنے وعدے پر قائم رہتی تو شاید یہ خسارے کو کسی قدر کم کرپاتی ۔بھاری خسارے اور معاشی شرح نمو کی سست روی کی تیسری وجہ سود کے نرخوں میں یک لخت ہونے والا اضافہ ہے ۔ یہ اضافہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت سے دگنا ہے ۔ اگر اب سود کے نرخ اُس سطح پر آبھی جائیں جہاں یہ مئی 2018ء میں تھے تو بھی قرض پر کی جانے والی ادائیگی دو سال پہلے کی نسبت پچاس فیصد زیادہ ہوگی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک ِانصاف جون کے اختتام تک، دوسال کے عرصے میں قومی قرضے میں پچاس فیصد اضافہ کرچکی ہے ۔ مزید یہ کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کئی مختصر مدت کے قرضوں کو طویل المدت قرضوں میں تبدیل کیا ہے ۔ ان پر قرضوں کے نرخ 13.25 فیصد تک بلند ہیں۔ چنانچہ سود کی شرح میں کمی سے قرضے کی مدمیں دی جانے والی رقم میں کمی نہیں ہوگی ۔
ایک ایسے وقت میں جب کوویڈ کی وجہ سے معیشت سکڑ رہی ہے ، محصولات میں اضافہ رک چکا ہے اور خسارہ تمام ریکارڈ توڑ رہا ہے،بجٹ سازی ایک تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے ۔ اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ کوویڈ سے متاثرہ دور میں بھی حکومت بہتری کے لیے کچھ چیزیں کرسکتی تھی ۔پہلی چیز میں یہ تجویز کرتا کہ حکومت ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کرے کیونکہ ترقیاتی کاموں میں مقامی محنت کش طبقے کو ملازمت ملتی ہے ۔ مثال کے طور پر پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام سڑکیں، پل، اسکول اور اسپتال وغیر ہ تعمیر کرنے کے لیے رقم مختص کرسکتا تھا۔ اس سے مالی مشکلات کا شکار ہونے والے افراد کے لیے کام کرنے کے مواقع نکلتے ۔ میں یہ بھی سفارش کرتا کہ حکومت کچھ مخصوص ٹیکسز پر نظر ِثانی کرتے ہوئے دیکھتی کہ کیا یہ انکم ٹیکس میں چھوٹ دے کر معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع دے سکتی ہے ؟حکومت تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس میں کچھ چھوٹ دے سکتی تھی جس طرح پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنے آخری برس کیا تھااور جو تحریک ِانصاف نے اقتدار میں آنے کے ایک ماہ اندر اندر ختم کردی تھی ۔ یا پھر حکومت سیلز ٹیکس ایک یا دوفیصد کم کرسکتی ہے ۔ اس کی وجہ سے گاہک زیادہ چیزیں خریدتے اور تعمیراتی شعبہ بھی ترقی کرتا ۔ میں یہ بھی سفارش کرتا کہ اسٹیٹ بینک فوری طور پر سود کے نرخوں میں کمی لائے۔
میں نے اپنے کالموں میں اس حکومت پر شدید تنقید کی ہے لیکن یہاںکچھ تعریفی کلمات کہنا چاہتاہوں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام؍احساس پروگرام کے تحت تقسیم کی جانے والی رقوم میں کوویڈکی وجہ سے رواں سال اور اگلے سال کیا جانے والا اضافہ قابل ِ تعریف ہے ۔اس وقت غریب اور لاچار افراد کی امداد کرنا سب سے بڑا قومی فریضہ ہے ۔میری تجویز ہے کہ اس سال حکومت غریب افراد کو ہنرسکھانے پر توجہ مرکوز کرے ۔ لنگرخانے یاانکم سپورٹ اُن لوگوں کو بے وقعت لگتے ہیں جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں، لیکن غریب افراد کے لیے مفت کھانے کی فراہمی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ آخر میں ہم نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ لنگر خانے سے استفادہ کرنے والا شخص کام کرنے کے لیے کارخانے میں بھی جاسکے۔ صرف اسی سے پاکستان مضبوط ہوگا۔