اسلام آباد(نمائندہ جنگ/ٹی وی رپورٹ)سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سول ایوی ایشن والے پیسے لے کر جہاز چلانے کا لائسنس دیتے ہیں، جعلی لائسنس پر جہاز اڑانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی میزائل ہوا میں اڑ رہا ہو، سول ایوی ایشن پیسے لے کر پائلٹوں کو لائسنس جاری کرتی ہے، تو قصور سول ایوی ایشن کا ہوا ناں، پائلٹوں کا کیا قصور ہے؟
کورونا نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنادیا،نہیں معلوم این ڈی ایم اے کیسے کام کررہا ہے،معیشت بیٹھ چکی ہے، حکومت کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں ،بحران کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے،وزیر اعلیٰ سندھ سے بڑھ کر کوئی بااختیار نہیں،سندھ میں 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، کیا پنجاب میں کوئی وزیر اعلی اور حکومت ہے؟
عدالت نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے جعلی ڈگری والے پائلٹوں اور حکومت سندھ سے ترقیاتی کاموں کی بجائے 4 ارب لگژری گاڑیوں کی خریداری پر خرچ کرنے سے متعلق وضاحت اورلوڈشیڈنگ پر رپورٹ طلب کرلی۔
تفصیلات کے مطابق عدالت عظمی میں کوروناانسدادی انتظامات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) سے این 95 ماسک کی خریداری،این 95 ماسک کی تیاری،الحفیظ کمپنی سے ادائیگی کی تفصیلات اور ذرائع آمدن و این ڈی ایم اے کی جانب سے درآمد کی جانے والی ادویات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں جبکہ حکومت سندھ کو گجر نالے کی صفائی کیلئے رقم کا بندوبست کرنے سمیت ترقیاتی کاموں کی بجائے چار ارب کی خطیر رقم افسران کے لئے لگژری گاڑیوں کی خریداری پر خرچ کرنے سے متعلق وضاحت طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی ہے۔
عدالت نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سمیت پی آئی اے، ایئر بلیو اور سرین ایئر لائن کے سربراہوں کو بھی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت سے طلب کرتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سے جعلی ڈگری والے پائلٹوں سے متعلق وضاحت طلب کر لی ہے جبکہ سندھ میں 18 گھنٹے کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر بھی آئندہ سماعت پررپورٹ طلب کرلی ہے ۔
چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں قائم 5رکنی لارجر بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو ا ٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے، جسٹس اعجازالاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ باہر سے منگوائی جانے والی ادویات کس کو دی جاتی ہیں۔
ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی نے کہا ہے کہ یہ در آمد کی گئی ادویات جس مریض کو دی جائیں ان کا ریکارڈ رکھا جائے،یہ دوا تشویشناک حالت کے مریضوں کے لئے ہے، اگر مریض کے کوائف اکٹھے کرنے شروع کردینگے تو اتنی دیر میں مریض اس دنیا سے ہی چلا جائے گا، بہتر ہوتا کہ کوائف اکٹھے کرنے کی ذمہ داری سرکاری اسپتالوں کو دی جاتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں معلوم یہ ادویات کس مقصد کے لئے منگوائی جارہی ہیں، کیا یہ ادویات پبلک سیکٹر اسپتالوں کو فراہم کی گئی ہیں، کیا یہ ادویات سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز کی زیر نگرانی استعمال ہو رہی ہیں؟ ،جو ادویات باہر سے آرہی ہیں، ان کی ڈرگ ریگیولٹری اتھارٹی سے منظوری ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی صرف بیان بازی کر رہی ہے، خالی بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا، ملک کی معیشت بالکل بیٹھ چکی ہے، حکومت کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں، صحت اور تعلیم کا شعبہ بہت نیچے چلا گیا ہے، لاتعداد گریجویٹس بیروزگار ہیں جن کو کھپانے کا حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں۔
ایک لاکھ لیبر واپس آرہی ہے جسے14 دن کے لئے قرنطینہ کرنے کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں، حکومت انہیں کہاں کھپائے گی، حکومت کے پاس کوئی معاشی منصوبہ ہے تو سامنے لائے، لوگوں کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔
حکومت سندھ کے پاس سینٹری ورکرز کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں اور افسران کیلئے4 ارب کی لگژری گاڑیاں کیسے منگوا رہی ہے، یہ گاڑیاں صوبے کے حکمرانوں کے لئے منگوائی گئی ہیں، ایک گاڑی کی قیمت ایک کروڑ16 لاکھ روپے ہے، اس طرح کی لگژری گاڑیاں منگوانے کی اجازت نہیں دینگے۔
سندھ حکومت 4 ارب کی رقم سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائے، ہم دیکھتے ہیں یہ4 ارب روپے کیسے سرکاری ملازمین اور لیڈروں کی عیاشیوں پر خرچ ہوتے ہیں، ٹڈی دل کے اسپرے کے لئے جہازوں کے پائلٹ باہر سے کیوں منگوا رہے ہیں؟ ہم44 سال سے عالمی تنظیم کے رکن ہیں آپ کو پہلے سے تیار رہنا چاہئے تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ سے بڑھ کر کوئی بااختیار نہیں ہے، سندھ حکومت اپنے صوبے کو کہاں سے کہاں لے جاسکتی ہے اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو، کراچی گجر نالہ بھرا پڑا ہے، اس کو صاف کرنے کا کسی کو خیال نہیں ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیصل آباد کے علاقے رضا آباد سے گٹر سے نکلنے والا پانی پورے شہر میں پھیلا ہوا ہے، کیا پنجاب میں کوئی وزیر اعلی اور حکومت موجود ہے؟
جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ کیا صوبے میں ذخیرہ اندوزی پر کسی قسم کا کوئی چیک بھی ہے، پنجاب میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، بارش سے لاہور میں کتنی بستیاں ڈوب گئی ہیں؟ کتنوں کو کرنٹ لگا ہے، اس موسم میں 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوگی توکیسے کچھ ٹھیک ہوگا؟
فاضل چیف جسٹس نے جعلی لائسنسوں کے حامل پائلٹوں کے حوالے سے کہا کہ سول ایوی ایشن والے پیسے لے کر جہاز چلانے کا لائسنس دیتے ہیں، جعلی لائسنس پر جہاز اڑانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی چلتا پھرتا میزائل ہوا میں اڑ رہا ہو، ہمیں حکومت کی رپورٹ پر حیرانی ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا، حیرت کی بات ہے 15 سال پرانا جہاز اڑایا گیا، رپورٹ میں سارا ملبہ سول ایوی ایشن پر ڈال دیا گیا ہے، سول ایوی ایشن والے ہی پائلٹوں کو لائسنس دیتے ہیں، یہ حیران کن ہے کہ جعلی لائسنس کی بنیاد پر جہازوں کی کمرشل پروازیں اڑانے کی اجازت دی گئی ہے، سول ایوی ایشن پیسے لے کر پائلٹوں کو لائسنس جاری کرتی ہے، تو قصور سول ایوی ایشن کا ہوا ناں، پائلٹوں کا کیا قصور ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب بتائیں سول ایوی ایشن کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی انفرادی شخصیت کو فیور نہیں ملنا چاہئے، باقی شعبوں کو بھی اگر ایسی سہولت ملے تو ملک کی تقدیر بدل جائے،کس قیمت کی مشینری آئی، ایل سی کیسے کھولی گئی، ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں، اگر حکومت نے تاجروں کو سہولتیں فراہم کرنا ہیں تو اخبار میں اشتہار دیا جائے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کمپنی کو ڈیوٹی پر چھوٹ کی سہولت نہیں دی جارہی۔