• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ معمولاتِ زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جہاں جہاں یہ وائرس پہنچا سب سے پہلے وہاں تعلیمی اداروں کو بچوں کی حفاظت کے پیشِ نظر بند کردیا گیا تاکہ وہ اس وبا سے متاثر نہ ہوں۔ یونیسیف کے مطابق لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں ایک ارب 57 کروڑ سے زائد طلبا کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی جیسے ہی کورونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تو حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے ہوئے فوراً ہی تعلیمی اداروں کو تالا لگادیا گیا۔ اب تقریباً چار ماہ سے ملک بھر کے سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند ہیں، جن میں موسم گرما کی چھٹیاں بھی شامل ہیں۔ 

اب نئے تعلیمی سال کا آغاز ہونے اور طلبا کا جو تعلیمی نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کرنے کے لیےدنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آن لائن تدریس کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر خاطر خواہ پیش رفت اور کامیابی دکھائی نہیں دے رہی۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک اندازے کے مطابق 3ارب60کروڑ افراد کو انٹر نیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے اور زیادہ تر افراد کم آمدنی والے ممالک میں رہائش پذیر ہیں جن میں ہر دس میں سے صرف 2افراد انٹر نیٹ تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں یا ا ن کی انٹر نیٹ تک رسائی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو کچھ عرصہ قبل تک آن لائن تعلیم کا روایتی طریقہ تعلیم سے کوئی مقابلہ نہیں تھا لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔ آن لائن تعلیم روایتی طریقہ تعلیم سے ہر سطح پر مقابلہ کرتی نظر آتی ہے اور اب تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث روایتی تعلیم بھی آن لائن تعلیم کی مدد لینے پر مجبور ہے۔ بہت سے تعلیمی اداروں نے اپنی اپنی موبائل ایپلی کیشن بنوالی ہیں جبکہ دیگر یوٹیوب یا مائیکروسافٹ ایپلی کیشنز کا سہارا لے رہے ہیں۔ 

روایتی طریقہ تعلیم میں متعین کردہ اوقاتِ کار میں اساتذہ آپ کو تعلیمی اداروں میں ہی اپنا علم منتقل کرتے ہیں جبکہ آن لائن تعلیم میں عموماً وقت کے تعین کی قید نہیں ہوتی۔ والدین، اساتذہ اور طلبا کی باہمی رضامندی سے وقت کا تعین کردیا جاتا ہے، عام طور پر طلبا نظم و ضبط اور ٹائم مینجمنٹ کا عمدہ مظاہر ہ کرتے ہیں۔ تاہم، اگر طالب علم کو اضافی رہنمائی کی ضرورت ہے یا وہ بہت زیادہ سوالات کرنے کا عادی ہے تو اس کو آن لائن تعلیم میں کچھ دقت پیش آنے کا امکان ہوتا ہے۔

کچھ عرصے قبل لوگ آن لائن تعلیم پر بھروسہ نہیں کرتے تھے لیکن بدلتے وقت نے آن لائن تعلیم تک رسائی، اس کے معیار اور مواقع کے حوالے سے زبردست پیش رفت کی ہے۔ اس طریقۂ کار کے تحت طلبا کے لیے نہ صرف تعلیم کے مزید در کھل جاتے ہیں بلکہ ان کے دنیا بھر کے افراد سے روابط بھی استوار ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ 

آن لائن لرننگ میں اس قدر وسعت ہے کہ تعلیم کی تقریباً تمام تر ضروریات پوری ہوسکتی ہیں ماسوائے ان کورسز کے جن میں پریکٹیکل شامل ہوتے ہیں۔ یہ طریقۂ تعلیم سماجی مساوات اور حرکت پذیری (Mobility)کے رخنے کو بھی پُر کرتاہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی بھی ملک کے تعلیمی اداروں میں مخصوص مضامین کی تعلیم دستیاب نہیں ہے تو وہاں آن لائن تعلیم کی سہولت سے یہ کمی پوری کی جاسکتی ہے۔ 

ایم آئی ٹی، اسٹینفورڈ، پرنسٹن اور ہارورڈ سمیت دنیا کی بہت سی معروف جامعات آن لائن کورسز پیش کرتی ہیں، جن میں سے کچھ فری کورسز بھی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے طلبا ان کورسز سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمیونیکیشن نیٹ ورک کی پیشرفت پر عمدہ توجہ دی جارہی ہے، خاص طور پر تعلیم کے میدان میں بہت کام کیا جارہا ہے۔

سب سے پہلا آن لائن کورس پاکستان کے 40اساتذہ نے اٹینڈ کیا تھا جو کہ ویب بیسڈ انگلش لینگویج کورس تھا۔ اس کورس میں سیکنڈری تعلیم پر بہت زور دیا گیا تھا۔ اس کورس نے اساتذہ کو کمپیوٹرز کے بارے میں سیکھنے میں مدد دی، ساتھ ہی انہوںنے یہ بھی سیکھا کہ ٹیچنگ ٹولز کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کورس کے ذریعے سیکھنے سکھانے کے ماحول میں بہت بہتر ی آئی۔ مضمون کے متعلق طلبا کا علم بہت اہمیت رکھتا ہے، چاہے وہ روایتی طریقے کے تحت تعلیم حاصل کررہے ہوں یا پھر انٹرنیٹ کے دوش پر۔ اگر طلبا کسی مضمون کے بارے میں لاعلم ہیں یااس کا قابل دسترس علم رکھتے ہیں تو پھر آن لائن کلاس اس مضمون کیلئے بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ کسی مضمون کے بارے میں کچھ نہیں جانتے یا کچھ حدتک پسِ منظر جانتے ہیں تو پھر روایتی طریقہ تعلیم ہی ان کیلئے بہترہے۔

پاکستان میں نظام تعلیم پرائمری، سیکنڈری، ہائرسیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن پر مشتمل ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش سے پہلے زیادہ تر روایتی طریقہ تعلیم رائج تھی اور آن لائن تعلیم کا کلچر نہ ہونے کے برابر تھا۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے آن لائن تعلیم کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی ٹیلی اسکول کے نام سے ایک ٹی وی چینل شروع کیا ہے، جس کے ذریعے نرسری سے بارہویں جماعت تک کے طالب علموں کو مختلف مضامین پر لیکچرز دیے جاتے ہیں۔ ملک میں ورچوئل یونیورسٹی بہت احسن طریقے سے آن لائن تعلیم دینے کا کام سر انجام دے رہی ہے جبکہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری کی سطح پر پاکستان میں آن لائن تعلیم کا کوئی قابل ذکر ادارہ موجود نہیں ہے۔

کورونا وائرس کے پیشِ نظر پاکستان میں اکثر اسکولوں، کالجز اور جامعات نے آن لائن کلاسز کا اہتمام تو کردیا ہے، تاہم وہ طلبا کو آگاہی فراہم کرنے میں مکمل طور پر کامیاب دکھائی نہیں دیتے۔ آن لائن کلاسز کا مطلب طلبا کو آسان طریقے سے مطلوبہ عنوان کی معلومات دینا اور انہیںسمجھانا ہے۔ اسکولوں کی سطح پر یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ آن لائن کلاسز محض والدین کو فیس کی یاد دہانی کرانے، اسباق کی معلومات فراہم کرنے، والدین کو مضامین کے اسباق کی تیاری سے متعلق معلومات اور تعلیمی اقوال فراہم کرنا معلوم ہوتا ہےجبکہ آن لائن کلاسز میں طلبہ کو براہ راست تعلیمی سرگرمیوں شامل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ 

والدین کا کردار بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ بچے کے آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے دوران اُن پر زیادہ ذمہ داری آجاتی ہے، انہیں ہوم ورک کے ساتھ کلاس ورک بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بیشتر طلبا انگریزی زبان اور کمپیوٹر چلانے میں زیادہ مہارت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے انھیں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر طلبا کے پاس اپنا ذاتی کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ نہیں ہے، لہٰذا وہ ای لرننگ کے ذریعے سیکھنے کے قابل نہیں ہوپارہے ہیں۔ جن والدین کے ایک سے زائد بچے ہیں اور ان کی آن لائن کلاسز کا وقت ایک ہی ہے تو ایسے میں ان کے لیے ایک سے زائد کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کا بندوبست کرنا بھی بڑا مسئلہ ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان جیسے ملک میں جہاں تقریباً 60فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقے میں مقیم ہے، وہاں آن لائن تعلیم کا نفاذ انتہائی مشکل نظر آتا ہے کیونکہ وہاں سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر عبور نہ ہونا اور کمپیوٹر چلانے کی اہلیت میں کمی جیسے مسائل قابل ذکر ہیں۔ دوسری جانب کچھ اساتذہ بھی انگریزی زبان اور کمپیوٹر چلانے کی مہارت نہیں رکھتے، ایسے میں وہ کس طرح اپنے طلبا کو آن لائن کلاسز کے تحت لیکچر دے پائیں گے۔ 

یہی وجہ ہے کہ مختلف جماعتوں کے طلبا کےلیے آن لائن طریقہ تعلیم پر بحث جاری ہے۔ روایتی تعلیم کو آن لائن طریقہ تعلیم سے بدلنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بچوں اور اساتذہ کو ای لرننگ کی تربیت دی جائے، ساتھ ہی نصاب تعلیم کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ طلبا بالخصوص پرائمری اسکول کے طلبا کمپیوٹر پر اسائنمنٹ بنانے کے طریقے سیکھ سکیں۔

تازہ ترین