• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر دور میں حکومتِ وقت کے عہدیدارفرعون کا پرتوہوتے ہیں۔ ووٹ لینے کے بعد انہیں اپنے ووٹروں کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی حکومت کے اکثر و بیشتر عہدیداروں کا بھی یہی حال ہے۔ ان میں قومی اسمبلی کےاسپیکر اسد قیصر کی سوچ مختلف ہے۔ وہ اپنے ووٹروں سے بھی تعلق رکھتے ہیں ان کے مسائل سے بھی آگاہ رہتے ہیں ان سے ملاقات بھی رکھتے ہیں۔ کورونا کے دنوں میں بھی انہوں نے یہ روایت برقرار رکھی خود کورونا کا شکار ہوئے مگر ووٹروں سے رابطہ نہ چھوڑا۔ اس ملک میں سگریٹ کے کاشتکار ان کے بڑے احسان مند ہیں۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے آپ کو باقی کالم پڑھنا پڑے گا۔

سگریٹ پینا ایک نہایت بری عادت ہے۔ سگریٹ نوشی بیماری کی علامت ہے۔ سگریٹ پینے سے پھیپھڑوں کا کینسر ہو جاتا ہے۔ ’’خبردار تمباکو نوشی مضر صحت ہے‘‘ سگریٹ کی ہر ڈبی پر کینسر کے مریضوں کی عبرت آموز تصاویر نقش ہوتی ہیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں کو سگریٹ کی فروخت منع ہے۔ پبلک مقامات پر سگریٹ پینا جرم ہے۔ یہ ہدایات اب آپ کو دنیا میں ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر میں ہر ملک میں اینٹی اسموکنگ تحریک چلتی ہے لیکن اس سب کے باوجود دنیا سے نہ سگریٹ نوشی ختم ہو تی ہے نہ سگریٹ سازی۔ یہ ایسی بری لت ہے کہ جس کا ایک دفعہ آدمی شکار ہو جائے تو مرتے دم تک اس علت سے چھٹکارا ممکن نظر نہیں آتا۔ دور کی بات کیوں کریں میں خود اس علت کا شکار ہوں۔ باقاعدگی سے اہلیہ سے اس سلسلے میں ڈانٹ کھاتا ہوں مگر اس کے باوجود چوری چھپے ایک آدھ سگریٹ پیئے بغیر دن کا آغاز نہیں ہوتا۔

سگریٹ پینے والوں اور سگریٹ سے مناہی کرنے والوں کی جنگ دہائیوں سے جاری ہے۔ ہر نئے سال کے ساتھ سگریٹ نوشوں پرنئی نئی پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ امریکہ میں کسی بلڈنگ میں تو کیا آپ کسی عمارت سے پچیس گز کے فاصلے تک سگریٹ نہیں پی سکتے۔ پاکستان میں آپ کسی آفس یا ہوٹل میں سگریٹ نہیں پی سکتے۔ یورپ میں سگریٹ کی ایک ڈبی اتنی مہنگی ہےکہ چند ڈبیاں خریدنے سے عام آدمی کا مہینے کا بجٹ درہم برہم ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ طریقہ ابھی تک اینٹی اسموکنگ تحریک میں سب سے کارآمد رہا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود سگریٹ آج بھی پوری دنیا میں فروخت ہو رہے ہیں۔ اس لئے کہ سگریٹ صرف ایک علت نہیں بلکہ ایک صنعت بھی ہے۔ منافع بخش کاروبار بھی ہے، زرمبادلہ کی صورت بھی ہے، ٹیکس کی ایک بڑی رقم بھی ہے۔ معیشت کا ایک اہم جزو بھی ہے۔

سگریٹ بنانے کا دھندہ عجب دھندہ ہے۔ اس میں بھی بڑے ساہوکار چھوٹے کاشتکاروں کا خون چوستے ہیں۔ بڑی کمپنیاں حکومت کے منظور نظر افراد کو پر کشش تنخواہوں پر کنسلٹنٹ بناتی ہیں۔ انکے تعلقات استعمال کر کےٹیکس بچاتی ہیں۔ مقامی کمپنیوں کو زور زبردستی سے دباتی ہیں اور قومی بجٹ میں من مانیاں کرتی ہیں۔ دنیا بھر سے جب سگریٹ کی قیمت میں اضافے کا شور پڑا تو پاکستان میں بھی اس کا ردعمل سامنے آگیا۔ لیکن ہوا یہی جو ہمارے ہاں ہوا کرتا ہے۔ بجائے اسکے کہ سگریٹ کی قیمت میں اضافہ کرکے سگریٹ کی فروخت کو مشکل بنایا جائے ٹیکس کا سارا نزلہ تمباکو کے مقامی کاشتکاروں پر ڈال دیا گیا۔ پاکستان میں قریباً ایک لاکھ مقامی لوگ تمباکو کی کاشت سے وابستہ ہیں۔ یہ غریب کسان ہیں جو اس فصل سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ سگریٹ بنانے والی بڑی کمپنیوں کی ساز باز سے سگریٹ پر لگنے والا سارا ٹیکس سگریٹ کی ڈبی کے بجائے کاشتکار پر منتقل ہو گیا ہے۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مافیا اتنا مضبوط ہے کہ پچھلے دنوں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دبائو کی وجہ سے اگلے مالی سال کے بجٹ کے لئےتمباکو کے شعبے کے اسٹیک ہولڈرز کی کھلی بحث کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔

کورونا اور ٹڈی دل کے عذاب نے اس ملک کے کسانوں کی تباہ کاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ زراعت کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ مشکلات کے شکار کسان کو ریلیف دینا تو دور کی بات موجودہ بجٹ میں تمباکو کے غریب کسانوں پر مزید لیویز کے نفاذ کا ارادہ کرتے ہوئےتمباکو کی فصل پر پانچ سو روپے ایڈوانس ٹیکس کا ارادہ کر لیا گیا۔

یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ تمباکو کی کاشت زیادہ تر خیبر پختونخوا کے صوبے میں ہوتی ہے۔ اس علاقے کے کسانوں نے اس ظلم پر شدید احتجاج کیا اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خصوصی تعاون اور توجہ سے اس ٹیکس کے نفاذ کو ختم کیا گیا۔ کیونکہ اس ٹیکس کا سارا فائدہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہونا تھا۔ تمباکو کی قیمت بڑھنے سے تمباکو کی مقامی صنعت کو جو دھچکا لگنا تھا اس کو وقتی طور پر تو روک لیا گیا ہے۔ لیکن یہ حل مستقل نہیں ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل سگریٹ کی ڈبی کی قیمت میں اضافہ ہے۔ کیونکہ اس طرح ٹیکس کا بوجھ مقامی کاشتکاروں پر نہیں بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں پر پڑے گا۔ قومی خزانے میں سگریٹ ٹیکس کی مد میں اضافہ ہو گا۔

اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کا تعلق چونکہ خود صوابی سے ہے۔ اس لئے وہ تمباکو پیدا کرنے والے کاشتکاروں کے مسائل اور متعلقہ امور سے بخوبی واقف ہیں۔ انکی کاوشوں سے تمباکو پر ایڈوانس ٹیکس ختم ہونے کے سبب تمباکو کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔ ملک میں مقامی صنعت ترقی کرے گی۔ روزگار بڑھے گا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری ختم ہو گی۔میں نے شروع ہی میں عرض کیا تھا کہ سگریٹ صرف ایک علت ہی نہیں ایک صنعت بھی ہے۔ جس میں بڑے مگرمچھ چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتے ہیں۔ بڑی کمپنیاں، کاشتکاروں پر ظلم کر کے منافع کماتی ہیں۔ غریب کا استحصال ہوتا ہے اور بھوک کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس معاملے پر سنجیدہ طرزِ عمل کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ صرف صحت کا نہیں بلکہ اس سے ملکی معیشت کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔

تازہ ترین