• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: بنارسی پرشاد سکسینہ

متّرجم:ڈاکٹر سیّد اعجاز حُسین

صفحات: 472،قیمت: 1200 روپے

ناشر: بُک کارنر،جہلم۔

یوں تو مُغلیہ سلطنت کے ہر بادشاہ ہی کی کچھ نہ کچھ امتیازی خصوصیات رہیں، جن کی بنیاد پر وہ یاد رہے۔ اُن ہی میں پانچویں شہنشاہ شاہ جہان کو کسی اور وجہ سے یاد رکھا جائے یا نہ رکھا جائے، البتہ لوگوں کو یہ بات ضرور یاد رہ گئی ہے کہ اُس شہنشاہ نے اپنی عزیز ترین بیوی، ارجمند بانو (ممتاز محل)کے انتقال پر غم و اندوہ میں مبتلا رہتے ہوئے، اُس کی یاد میں آگرہ جیسے تاریخی شہر میں ایک محل تعمیر کروایا۔ سترہ برس کی متواتر تعمیر کے نتیجے میں دُنیا کو ’’تاج محل‘‘ کی صُورت ایک عجوبہ میسّر آیا۔ یہاں تک ہوا کہ تاج محل کو محبّت کی یادگار کے طور پر یاد کیا جانے لگا ۔کیا اپنے اور کیا پرائے ،سب ہی اُس کے گُن گاتے نظر آنے لگے۔

حالیہ تاریخ کے ایک ممتاز شاعر، شکیل ؔ بدایونی کی نظم کا ایک شعر آج بھی زباں زدِ خاص و عام ہے؎’’اِک شہنشاہ نے بنوا کے حَسیں تاج محل…ساری دُنیا کو محبّت کی نشانی دی ہے‘‘۔ یہ سب باتیں تو اپنی جگہ، سرِدست تو بنارسی پرشاد سکسینہ کی کتاب ’’شاہ جہان مُغلیہ سلطنت کا پانچواں شہنشاہ‘‘کی ذیل میں یہ بتانا مقصود ہے کہ مصنّف نے آج سے کوئی نوّے برس قبل لندن یونی ورسٹی سے اپنا تحقیقی مقالہ مکمّل کیا تھا،جس پر پی ایچ ڈی کی سند عطا ہوئی۔

کتاب کا زیرِ نظر ترجمہ ایک اور صاحبِ علم ہستی ڈاکٹر سیّد اعجاز حسین کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد مُغلیہ سلطنت کے پانچویں شہنشاہ کا تمام تر عہد نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ کتاب اپنی اوّلین اشاعت کے بعد بھی شایع ہوتی رہی۔ تاہم، زیرِ مطالعہ کتاب ہر لحاظ سے دیدہ زیب ہے۔ کتاب کے متن کی وقعت تو اپنی جگہ، اس میں شامل انتہائی خُوب صُورت تصاویر نے اس کے صُوری حُسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

تازہ ترین