• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرض تمنا … خالد محمود جونوی
 کچھ روز قبل پاکستان کی ممتاز علمی و ادبی شخصیت طارق عزیز اللہ تعالیٰ کو عزیز ہوگئے، ممتاز عالم دین علامہ طالب جوہری، مفتی نعیم اور جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن بھی چل بسے ہیں مگر جب سے یہ روح فرسا خبر سن رکھی ہے کہ خطہ پوٹھوار کے ممتاز شاعر و ادیب اور پیش کار جناب سید آل عمران اب ہم میں موجود نہیں رہے دل سخت صدمے اور قلق کا شکار ہے۔موت ایک تلخ حقیقت ہے، اس سے کس کو انکار ہے مگر عین شباب میں ان کا داغ مفارقت دے جانا ان کے اعزاء و اقربا اور دوست و احباب کے لیے بھی ایک صدمہ جانکاہ ہے۔ قدرت نے سید آل عمران کی ذات میں بے شمار خوبیاں اور صلاحیتیں جمع کر رکھی تھیں۔ شاعر، ادیب، پیش کار الغرض ذرائع ابلاغ کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جہاں انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا لوہا نہ منوایا ہو۔ وہ خطہ پوٹھوار کے ’’طارق عزیز‘‘ ہے، جنہوں نے اپنی ماں
بولی کی ترقی و اشاعت، اس کی حیثیت منوانے میں وسائل سے بھرپور کئی افراد اور اداروں کی نسبت تن تنہا اتنا کام کیا کہ ان پر رشک آتا ہے، وہ عام آدمی کی آواز بنے۔ انہیں شاعری اور نثر میں یکساں مکہ حاصل تھا، کم و بیش پندرہ کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ قدرت نے ان کے لہجے میں کام کی شیرنی رکھی تھی۔ ایک تکمیل پسند انسان کی طرح اپنا کام جلدی نمٹانے کی تگ و دو میں لگے رہتے۔ انہوں نے اگرچہ کم عمر پائی مگر اپنے حصے کا بہترین کام کرتے ہوئے ایسی شمعیں جلا گئے کہ آنے والے لوگ اس سے روشنی و رہنمائی لیتے رہیں گے۔ ہماری ان سے رفاقت گزشتہ کئی برسوپر محیط تھی۔ ایک دن ایک دیہاڑی دار اور مزدور کی طرح جب تھکا ہارا گھر پہنچا تو ٹی وی آن تھا جس پر ایک خوبصورت لب و لہجے والا ایک شخص پروگرام کی میزبانی کررہا تھا۔ اس دوران اس نے ایک شعر پڑھا۔ جانے کیوں اچھے شعر میری کمزوری ہیں، جب تک شعر لکھنے کے لیے قلم، کاغذ تلاش کرتا، تب تک پروگرام تو ختم ہوگیا لیکن میری بے چینی بڑھا گیا۔ یہ بات زمانہ قبل سوشل میڈیا کی ہے، آج کل کی طرح روابط آسان نہ تھے۔ البتہ بعدازاں معلوم تو ہوگیا کہ خوبصورت گفتگو کرنے والا یہ نوجوان سید آل عمران ہے۔ ان سے ملاقات کا شوق اور تجسس بڑھ گیا مگر ایک اتوار کی سہ پہر میرے گھر کے فون کی گھنٹی بجتی ہے تو علیک سلیک کے بعد جب وہ اپنا تعارف کرواتے ہوئے اپنا نام سید آل عمران بتاتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ جس شخص سے ملاقات کے لیے میں بے قرار تھا اس نے خود ہی فون کر رکھا ہے۔ بعدازاں یہ راز کھلا کہ ہمارے مشترکہ دوست راولپنڈی میں مقیم صغیر قمر نے انہیں یہ راہ دکھلائی ہے۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، بہت محبت کرنے والے علم اور انسان دوست تھے۔ سید آل عمران اگرچہ گوجر خان میں پیدا ہوئے، مگر ان کی پیاری اور دلنشین شخصیت کی خوشبو دنیا کے ہر اس کونے تک پہنچی جہاں اردو اور پوٹھواری زبان بولنے اور سمجھنے والے لوگ موجود تھے۔ وہ لفظ بولنےمیں بڑے خود کفیل تھے، پوٹھواری زبان کے کئی الفاظ اور معافی کو نئی جہت اور زندگی بخشی، ریڈیو، ٹی وی اور کتابیں ان کی دوست تھیں۔ سید آل عمران جنہیں مرحوم لکھتے وقت ہاتھ کانپ رہے ہیں، ان سے آخری ملاقات بھی راولپنڈی میں ہوئی، صحت کے حوالے سے اگرچہ کچھ آزمائشوں کا شکار ضرور تھے، مگر اندازہ نہیں تھا کہ یہ ملاقات آخری ثابت ہوگی۔ ان کی شریک حیات نے ان کے لیے اپنا گردہ عطیہ کیا، وہ اس سے تو تندرست ہوگئے مگر بیماریوں سے لڑتے لڑتے ان کا نظام مدافعت کافی کمزور ہوگی، جس کے باعث وہ کورونا جسی موذی وبا کا شکار ہوکر چل بسے۔
تازہ ترین