• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (انصار عباسی) دہشت گرد تنظیم بی ایل اے، جس نے پیر کو کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا تھا، کے بھارت سے تعلقات کا سب ہی کو پتہ ہے۔

صرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہی یہ اعتراف نہیں کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں بھارت کا ہاتھ ہے، بلکہ نئی دہلی میں میڈیا بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بی ایل اے کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں۔

ان اعترافات کے علاوہ، بھارت کی معاونت سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو بھی پاکستان نے را کے نیوی افسر کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے گرفتار کر کے کھل کر بے نقاب کیا ہے۔

پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت کی معاونت سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے، سی پیک کے افتتاح کے بعد سے بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کرانے کیلئے زیادہ فعال ہوگیا ہے جس کیلئے وہ بی ایل اے جیسی تنظیموں کی معاونت کر رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مارچ 2016ء میں سی پیک کے افتتاح کے بعد گرفتار کیا تھا۔

یادیو کو ایرانی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوتے وقت گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ منفرد لیکن ہائی پروفائل گرفتاری تھی جس میں حاضر سروس بھارتی جاسوس کو بلوچستان کے دہشت گرد گروپس کی سرپرستی کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ گزشتہ سال جولائی میں سرکردہ اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے بی ایل اے پر ایک آرٹیکل لکھ کر تصدیق کی کہ ’’یہ طے ہے کہ بی ایل اے کے کمانڈرز، ماضی میں، بھارت کے اسپتالوں سے طبی مدد لیتے رہے ہیں، اکثر ایسا جعلی شناخت کے تحت ہوتا رہا ہے۔‘‘

اخبار کے مطابق، ایسے ہی ایک معاملے میں خضدار شہر سے تعلق رکھنے والے ایک شدت پسند کمانڈر نے 2017ء میں 6؍ ماہ نئی دہلی میں کیلئے قیام کیا، ان کا گردوں سے متعلق ایک طویل علاج ہوا، پاکستان نے بلوچ باغیوں کی حمایت کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔ آرٹیکل میں یہ بھی لکھا تھا کہ یہ معلوم تھا کہ کچھ بلوچ سرداروں کے کئی بھارتی شخصیات کے ساتھ گرمجوش تعلقات ہیں، تاہم جعلی شناخت پر شدت پسندوں کا اس طرح سے آنا نامور رہنمائوں کے مقابلے میں برعکس ہے۔

اخبار میں لکھا تھا کہ ایک اور رہنما ماما قدیر نے گزشتہ سال دورہ کیا، وہ سول سوسائٹی کی تحریک کا ایک نمایاں نام بن چکے ہیں، انہوں نے اپنے گمشدہ بیٹے (بلوچ کارکن) کیلئے ایک لانگ مارچ کیا تھا۔

بی ایل اے رہنمائوں کے حوالے سے اخبار میں لکھا تھا کہ 2018ء میں بی ایل اے کا نوجوان سخت گیر رہنما اسلم بلوچ قندھار کے اینو مینا میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ خودکش دھماکے میں مارا گیا۔ غیر مصدقہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلم بلوچ ماضی میں بھارت کا دورہ کر چکا تھا اور بلوچ کاز سے ہمدردی رکھنے والے افراد سے ملاقات بھی کی تھی۔

جون 2015ء میں بھارتی وزیراعظم مودی نے بنگلادیش کے دورے کے موقع پر کھل کر اعتراف کیا تھا کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو بنگلادیش بنانے کیلئے مکتی باہنی کے قیام پر پچھتاوا نہیں ہے۔ کچھ سال قبل، مودی حکومت نے پاکستان مخالف بلوچ جلا وطن رہنمائوں بشم​ول کالعدم بلوچ ریپبلکن پارٹی (بی آر پی) کے برامداغ بگٹی کو شہریت کی پیشکش کی تھی۔

براہمداغ نے تصدیق کی تھی کہ انہیں بھارتی حکومت نے باضابطہ طور پر پناہ اور شہریت دینے کی پیشکش کی تھی تاکہ وہ رہ سکیں اور پاکستان مخالف مہم چلانے کیلئے دنیا بھر میں سفر کر سکیں۔

دی نیوز کے لندن میں نمائندے مرتضیٰ علی شاہ نے 2016ء میں خبر دی تھی کہ براہمداغ بگٹی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طویل عرصہ سے رابطے میں ہیں لیکن اس بات کا پورا بھانڈا کسی اور نے نہیں بلکہ بھارتی وزیراعظم مودی نے خود ہی پھوڑ دیا اور پاکستان کے موقف کی تصدیق کر دی کہ بھارت پاکستان اور بلوچستان میں پرتشدد جنگجو گروپس کی معاونت کر رہا ہے۔

یہ بات سامنے آئی تھی کہ جنیوا میں دونوں فریقین کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں جن میں مختلف آپشنز پر غور کیا گیا تھا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ (را) کے سینئر عہدیداروں نے ان ملاقاتوں میں شرکت کی اور ساتھ ہی بھارتی مشن کے سفارت کار بھی شریک ہوئے۔

پریس کانفرنس میں براہمداغ بگٹی نے اعلان کیا کہ پارٹی رہنمائوں نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ بھارت میں پناہ کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔

تازہ ترین