• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :آصف نسیم راٹھور۔بریڈفورڈ
پانچ جولائی تاریخ کا سیاہ دن ہے جب ڈکٹیٹر نے عوام کی منتخب کردہ جمہوری حکومت پر شب خوں مار کر غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا اور وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا تھا ، اس قبیح اور بدترین عمل سے پاکستان میں جمہوری سفر کو روک کر ملک کو تاریکی میں ڈبویا گیا اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی دشمنی میں ملک کو لامتناہی نقصان پہنچا کر پیچھے دھکیل دیا گیا۔ جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے خلاف ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے جیالے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ 5 جولائی 1977 کو پاکستان میں جمہوریت کا گلا گھونٹ کر ملک میں فرقہ واریت، جبر و ظلم ، علاقائی تعصب اور دہشت گردی کا بیج بویا گیا ۔ نوے دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا گیا۔اس روز رات کی تاریکی میں ایک آمر نے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت پر قبضہ کرتے ہوئے قانون کوپامال کیا دُنیا کے کسی خطے میں ڈکٹیٹر کے جمہوری حکومت پر ظالمانہ قبضے اور ماشل لاء کبھی بھی پسند نہیں کیا گیا ڈکٹیٹر کا نام ہمیشہ تاریخ میں نفرت کے ساتھ لیا جائے گا۔ڈکٹیٹر کے بوئے ہوئے بیجوں کا کڑوا پھل بطور قوم ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ڈکٹیٹر کے ہاتھوں تباہ ہونے والے ہمارے سیاسی، انتظامی اور آئینی ڈھانچے کو درست کرنے میں قوم کو سالہا سال انتظار کرنا پڑا تاریخ گواہ ہے کہ تباہ کن اقدامات کا مکمل ازالہ آج بھی ممکن نہیں ہوسکا۔ آمریت جس روپ میں بھی ہو وہ استعماری قوتوں کی آلہ کار ہوتی ہے اس کے نزدیک قومی اور ملکی مفاد کی حیثیت ہمیشہ ثانوی رہی ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان کیلیے خدمات ناقابل فراموش ہیں لیکن ان کا یہ کارنامہ کہ انھوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھ کر قوم کو ازلی دشمن بھارت کی درندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آزاد کیا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نام قیامت تک تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جاتا رہے گا دُنیا جانتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا نام آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور بھٹو کے سفاک قاتلوں کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے۔ تاریخ ظالم سے خود انتقام لے لیتی ہے ۔ ذوالفقارعلی بھٹو کا قصور یہ تھا کہ وہ مسلم ممالک اور تیسری دنیا کا ہیرو تھا کیونکہ امریکی سامراج کو اس طرح کے اور خاص کر تیسری دنیا کے وہ رہنماء بالکل پسند نہیں آتے جو دنیا کے طاقتور ترین سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو کہا تھا کہ ایٹمی پروگرام ختم کر دیں ورنہ بھٹو صاحب آپ کیلئے اچھا نہیں ہو گا کھلے عام سزا دینے کی دھمکی دی تھی۔ پاکستان کے عظیم محسن سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل کہلاتی ہے۔21مارچ 1978کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے کہا تھا ’’میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا، اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا ( اقبال جرم )کر لیتا ۔اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ اس ذات مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے، میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو سکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوںکہ میں نے اس مملکت اسلامیہ پاکستان کی راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم اور معاشرہ کی تعمیر کی ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت جیل کے اس ’’بلیک ہول‘‘ میں
اپنے ضمیر کے ساتھ مطمئن ہوں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے واقعات و حادثات اب پاکستان کی قومی تاریخ کا حصہ ہیں‘‘۔ انصاف کے قتل کے اس تاریخی مقدمے کے دیگر تمام کردار بھی دنیا سے رخصت ہو کر اس آخری عدالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں انصاف کا قتل نہیں بلکہ انصاف ہو گا۔ بھٹو پھانسی پا کر تاریخ میں شہید کہلایا۔ ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل کے بعد پاکستانی تاریخ کا ایک مضبوط کردار بن چکے ہیں۔
تازہ ترین