• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عزیربلوچ کے خلاف غداری کا مقدمہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت درج کیا جائے، جے آئی ٹی کی سفارش

کراچی (اسد ابن حسن) عزیربلوچ کی رپورٹ جو 36 صفحات پر مشتمل ہے اور جس کو سندھ حکومت نے کہا ہے کہ وہ پیر کو باضابطہ پبلک کردی جائے گی مگر جمعہ سے یہ رپورٹ سوشل میڈیا پر وائرل اور ٹی وی چینلز پر موضوع بحث رہی۔ اس میں سب سے خاص بات جو جے آئی ٹی نے سفارش کی ہے کہ مزید تحقیقات کے علاوہ عزیربلوچ پر سنگین غداری کا مقدمہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت درج کیا جائے۔ واضح رہے کہ اس کی سزا موت ہے۔ تفصیلات کے مطابق مذکورہ جے آئی ٹی میں حیرت انگیز طور پر ایف آئی اے کو شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ بلدیہ جے آئی ٹی میں ایف آئی اے افسر شامل رہا اور عزیر بلوچ کے کیس میں امیگریشن سے متعلق الزامات تھے مگر ایف آئی اے کو بوجوہ شامل نہ کرنا ایک سوالیہ نشان رہا۔ اس جے آئی ٹی رپورٹ کو ایس ایس پی ساؤتھ زون فدا حسین جانواری کے دستخط سے جاری کیا گیا۔ اس جے آئی ٹی کے چھ ممبران تھے جن میں ایس ایس پی اسپیشل برانچ، ایس ایس پی سی ٹی ڈی، ڈپٹی ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو، ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ایس آئی، ایم آئی کے میجر اور پاکستان رینجرز سندھ کے ایک میجر شامل تھے۔ مذکورہ تمام افسران کے 34 صفحات پر دستخط موجود ہیں۔ صفحہ نمبر 32 پر تمام تحقیقات کی مختصر فائڈنگ تحریر ہے جو کچھ یوں ہے: ملزم (عزیر بلوچ) اور اس کے ساتھی لسانی بنیادوں پر اور دیگر معصوم انسانوں جن کی ایک بڑی تعداد رہی ان کے قتل میں ملوث تھے۔ ملزم پولیس اور رینجرز کے جوانوں کے قتل، تھانوں پر حملوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام ثابت ہوگئے۔ ملزم کی پاکستان اور دبئی میں وسیع پیمانے پر اربوں کی جائیدادیں ہیں اس نے کالادھن کے ذریعے خریدیں۔ ملزم 50 سے زائد مقدموں میں مفرور ہے جو اس کے واسطہ یا بالواسطہ قتل سے متعلق تھے۔ ملمم ہنڈی حوالے میں بھی ملوث رہا۔ ملزم کے پاس ایران کی شہریت کے حوالے سے جعلی کاغذات برآمد ہوئے۔ ملزم کی تحویل میں بھاری اسلحہ و بارود موجود رہا اور اس کچھ اس نے دوران حراست برآمد بھی کروایا۔ ملزم نے پیپلز امن کمیٹی کی آڑ میں لیاری کو اپنی سلطنت بنا لیا اور اس کی وجہ سے پورے شہر میں خوف کی فضا قائم ہوگئی۔ ملزم زمین کے قبضوں، چائناکٹنگ، بھتہ خوری اور منشیات کی فروخت میں بھی بڑے پیمانے پر ملوث رہا۔ ملزم ایک پڑوسی ملک کیلئے جاسوسی بھی کرتا رہا اور اس نے حساس تنصیبات کی تصاویر، اسکیچز اور افسران سے متعلق معلومات فراہم کیں جوکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی خلاف ورزی تھی۔ اگلے صفحے نمبر 34 پر جے آئی ٹی کی سفارشات یہ رہیں: ملزم کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ 1923 کے تحت سخت کارروائی کی جائے یعنی جاسوسی کے الزام میں (جس کی سزا موت ہے) ملزم کو تمام جے آئی ٹی ممبران ”بلیک“ (یعنی قصوروار) مانتے ہیں۔ ملزم اور اس کے تمام ساتھیوں کے خلاف چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں، تحقیقات اور کارروائیاں کی جائیں۔ تمام درج مقدمات پر دوبارہ باریک بینی سے تحقیقات شروع کی جائیں۔ ملزم کو متعلقہ اتھارٹی کی تحویل میں دے دیا جائے۔ ملزم نے جو اعتراضات کیے ہیں اس میں ایف آئی اے، نیب اور اینٹی اینکروچمنٹ سیل کی حدود بھی لگتی ہیں۔ لہٰذا ان ایجنسیوں کے حوالے بھی کیا جائے۔ ملزم کی نشاندہی پر اسلحہ برآمدگی کا مقدمہ بھی درج کیا جائے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے جرائم ہیں جن پر مزید تفتیش کی جائے۔

تازہ ترین