گزشتہ 15سالوں میں مجھے سنگاپور اور چین کے معتدد دورے کرنے کا موقع ملا، اس دوران میں نے دونوں ممالک کا قریب سے مطالعہ کیا ہے۔ میں نے چین کی کامیابی کے مختلف ادوار پر کتابیں پڑھیں اور سنگاپور کے لی کوآن کو بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھا کہ ان دونوں ممالک نے دنیا کے سب سے کامیاب ماڈل کس طرح تیار کیے۔ چارلی منگر کا شمار امریکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے اور وہ وارن بفٹ کے ساتھی ہیں۔ وہ مہاتیر کی عمر کے ہیں، انہوں نے سنگاپور کو ایک بہترین نمونہ کہا اور چین کی تعریف کی کہ جس نے سنگاپور کے لی کوآن سے سیکھا اور تاریخ کے مختصر ترین عرصے میں کامیابی کی کہانی تخلیق کی۔ چین اور سنگاپور پر میری بار بار توجہ اسی وجہ سے ہے کہ سنگاپور دُنیا کے چند چھوٹے ممالک میں سے ایک ہے اور چین دُنیا کے چند بڑے ممالک میں سے شامل ہے، دونوں ایک مضبوط معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام کے ذریعے ایسی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو پچھلے 40سالوں سے غیر متزلزل اور مستحکم ہے۔ اکثر لوگ غلطی کا شکار ہو جاتے ہیں، جب وہ سنگاپور کو اُس کے چھوٹے سائز کی وجہ سے ایک سیکھنے کے ماڈل کے طور پر نہیں لینا چاہتے۔ سوچیں اگر چین سنگاپور سے سیکھ سکتا ہے تو اس کی کوئی اچھی وجہ ہو گی۔ ہمیں سیکھنے کیلئے سائز اور حجم نہیں دیکھنا ہوتا بلکہ اس کے ڈیزائن اور افادیت کو دیکھنا ہوتا ہے۔ چین کے ڈنگ شائوپنگ 1978ء میں سنگاپور کے دورے میں فیصلہ کر چکے تھے کہ چین کو سنگاپور سے سیکھنا ہے۔ 1990ء سے اب تک تقریباً 50ہزار چینی آفیشلز سنگاپور کے اداروں میں ترقی حاصل کر چکے ہیں۔ سنگاپور چین کی پچھلے دو دہائیوں سے ٹاپ درسگاہ ہے لیکن اب چین جہاں پہنچ چکا ہے وہاں اُسے اب صرف اپنے آپ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چین اب دنیا کا بہترین ماڈل ہے۔ سنگاپور میں سود کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ ایک غیر ملکی کی حیثیت سے، میں نے سالوں پہلے سنگاپور میں ایک رہائشی قرض لیا تھا۔ ہر سنگاپورین کے پاس اپنے مکان کے مالک بننے کے لئے حق اور رسائی حاصل ہے۔ تو ذرا تصور کریں کہ یہ بالکل اسلامی نظام سے ملتا جلتا ہے جہاں ہر شہری کے پاس ایک پناہ گاہ ہونی چاہئے اور اسے بھوکا نہیں سونا چاہئے۔ جرائم کی شرح تقریباً صفر ہے۔ خواندگی 100فیصد ہے۔ 60لاکھ آبادی والا ملک ’’مشرق بعید‘‘ کے خطے کی قیادت کر رہا ہے۔
دنیا کی ہر مستقبل کی ٹیکنالوجی کو سنگاپور میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ اسے مارکیٹ کیا جا سکے۔ کچھ سال پہلے میں سنگاپور کے دورے کے دوران ایک ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کر کے فوری طور پر شہر میں ایک الیکٹرک کار تک رسائی حاصل کر سکتا تھا اور یہ سب کچھ بغیر کسی ڈرائیور کے تھا۔ ایپلی کیشن بار کوڈ کے ساتھ سائیکلوں کے کرائے لینے کا کام بھی اسی ملک میں شروع کیا گیا تھا اور بعد میں پوری دنیا میں یہ تجربہ ہوا۔ بدقسمتی سے ملائیشیا سنگاپور کی طرح نہ بن سکا کیونکہ مہاتیر کے بعد یہ اکثر اسلامی ممالک کی طرح افراتفری اور بدعنوانی کا شکار ہو گیا۔ سنگاپور میں لی کوآن نے اس وقت تسلسل کو یقینی بنایا جب ان کے بعد ان کے بیٹے نے اس ملک کا اقتدار سنبھالا۔ تسلسل اور استحکام کی دو نسلوں نے سنگاپور کو سب سے کامیاب مثال کے طور پر پیش کیا اور چین جیسی دوسری بڑی معیشت کو اس کی مثال پر چلنے کی ترغیب دی۔ چارلی منگر چین کی کامیابی کو نہ رکنے والا طوفان سمجھتے ہیں اور چینی نظام پر اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جو صنعتی طاقت بننے یا 350ملین لوگوں کو غربت سے نکالنے میں بے مثال ہے۔ چارلی منگرز کا ایک مشہور حوالہ ’’چین نے سنگاپور میں ایک چینی شخص سے سیکھا جو لی کوآن تھا‘‘۔ بہت عرصہ پہلے میرا یقین تھا کہ ہمیں امریکہ اور یورپی ماڈل کی مثالوں پر عمل نہیں کرنا چاہئے، اس کے بجائے ہمیں چینی اور سنگاپورین ماڈلز سے سیکھنا اور انہیں اپنانا چاہیے۔ اگر مجھے سیکھنے کے لئے کسی تیسرے ملک کا ذکر کرنا پڑے تو وہ جاپان ہوگا۔ لی کوآن نے جاپان سے بہت کچھ سیکھا اور سنگاپور کی ابتدائی کامیابی جاپان سے بہت زیادہ متاثر کن تھی لہٰذا سیکھنے کا راستہ کچھ اس طرح سے ہے: سنگاپور نے جاپان سے سیکھا اور چین نے سنگاپور سے سیکھا اور اب دنیا چینی کامیابی کو قبول کر رہی ہے۔ جنوبی کوریا نے بھی جاپان سے سیکھا جسے چوتھی کامیابی کی کہانی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ چین، جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ہانگ کانگ، تائیوان، ملائیشیا، انڈونیشیا، ویتنام، تھائی لینڈ، بنگلا دیش، ترکی، متحدہ عرب امارات اور فلپائن یقیناً ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان، بھارت، افغانستان، ایران پیچھے رہ گئے ہیں۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ یہ 4ممالک اپنی حکمت عملی، سسٹم اور وژن پر نظر ثانی کریں۔ انڈیا میں صنعتی ترقی تو ہوئی لیکن وہ غربت اور نظام میں بہتری نہ لا سکی۔
عمران خان پاکستان کیلئے ایک موقع ہیں لیکن سسٹم کی بڑی سرجری کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ مافیا اور کارٹل اپنی طاقت پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتے، ان سے طاقت چھینی جاتی ہے جیسے چین، سنگاپور، ترکی اور جنوبی کوریا نے کیا۔ بنگلا دیش ہمارا حصہ تھا، لیکن ہم سے جدا ہو کر ہم سے آگے نکل گیا۔ کیوں؟ ہم اس کا جواب تو جاننا چاہتے ہیں لیکن اس کے پیچھے کی حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ ان زیادہ تر ممالک میں کڑا احتساب، سیاسی استحکام اور انصاف کامیاب سسٹم کی بنیاد بنا۔ پاکستان میں ان تینوں کا فقدان ہے۔ نیا پاکستان پرانے بیورو کریٹس کے بہت ہی پرانے رٹے رٹائے اسباق سے ممکن ہے۔ معاشی استحکام سے پہلے امن کا ہونا ضروری ہے۔ اس آلودہ نظام کے انجن کا تیل تبدیل کرنے سے نظام درست نہیں ہو گا، انجن ہی تبدیل کرنا پڑے گا۔ پرانے ایکسپرٹس کو گھر بھجنا ہو گا اور ورکشاپ بدلنا ہوگی۔