• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لگتا ہے اپنا دبنگ وزیر اعظم بھی اس وبا کے آگے بے بس ہے۔ میں توخیر اسی وقت سمجھ گیاتھا جب ’’ نظریہ‘‘ کے حصول کے لیے ان لوگوں کو پارٹی میں قبول کرنے کا فیصلہ کیا گیا جنہوںنے ہمیشہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں مگر پھر بھی کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ اس کو بھی موقع ملنا چاہیے ۔ضرور ملنا چاہیے اور اب بھی میںاس کا حامی ہوں کہ کسی مائنس ون فارمولہ کو قبول نہ کیا جائے ورنہ کوئی بھی وسیم اکرم پلس بن کر آسکتا ہے۔

محترم وزیر اعظم، کرپشن ایک وائرس ہے جو وبا کی مانند ہماری جڑوں میں بیٹھ گیا ہے، اس کا علاج اس سے نہ کرائیں جو خود اس میں مبتلا ہو۔ آپ کے سامنے ہی ہے جب آپ نے پیٹرول سستا کیا تو وہ نایاب ہوگیا،جب 26جون کو25روپے لیٹر بڑھایا گیا وہیں پیٹرول بازیاب ہوگیا اب آپ کو تو پتا ہے کسی کو بازیاب کرانے کے لیے تاوان تو ادا کرنا پڑتا ہے اب کراتے رہیں آپ تحقیقات۔

پچھلے سال دوائیں مہنگی ہونے کی بھی تو تحقیقات ہوئی تھیں، کیا بنا؟ کسی کو سزا ہوئی؟ کیا دوائیں سستی ہوگئیں اب آپ چینی اور آٹے کوہی لےلیں کیا جشن منایا گیا تحقیقاتی کمیشن رپورٹ پبلک کرنے کا مگر کیا چینی اور آٹا سستا ہوگیا۔ ابھی تو اس ناسور کرپشن وائرس پرہی بات کرلیتے ہیں ۔

جب بھی اس ملک میں کسی چیز کی ،انسداد مہم، چلائی جاتی ہے وہ اسی شدت سے واپس آتی ہے۔ چند سال پہلے کراچی میں انسداد کرپشن محکمہ کا افسر کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوا ۔ بعد میں ویسےہی چھوٹ گیا جیسے اس طرح کے مقدمے میں ہوتا ہے۔ ہر سال انسداد ٹڈی دل اسپرے ان کے حملہ آور ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اگر پہلے ہوجائے گا تو شاید بجٹ کم ہوجائے۔

جس طرح کراچی میں نالوں کی صفائی بارشوں کے قریب کی جاتی ہے تاکہ خوب گندگی جمع ہوجائے۔میں نے کہا نا یہ وائرس خطرناک ہے۔ بڑی امید تھی کہ کرپشن کے خلاف کوئی موثر ویکسین لائی جائے گی مگر جہاں’ توبہ‘ جیسی ویکسین بھی ہر گناہ کرنے کے بعد استعمال کی جاتی ہے اور پھر بھائی لوگ وہی گناہ بار بار کرتے ہیں ایسے معاشرے میں اب بیچارہ وزیر اعظم کرے بھی تو کیا کرے۔

برسوں قبل کسی نے نعرہ لگایا تھا ، ’ پہلے احتساب پھر انتخاب‘۔ لوگ اس نعرہ کے سحر میں آگئے ۔نہ احتساب ہوا نہ انتخاب بس یہ سوال کیا گیا کہ اگر آپ ملک میں ‘ اسلامی نظام‘ چاہتے ہیں تو میں پانچ سال کے لیے صدر ہوں۔وہ دن ہے اور آج کا دن، احتساب خود کرپشن وائرس کا شکار نظر آتا ہے۔

اب اگر نواز شریف دور کے احتساب بیورو سے پرویز مشرف کے قومی احتساب بیورو تک کی داستان بیان کردی جائے تو سوائے انتقام کے اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے کچھ نظر نہیں آتا ۔

یہی وجہ ہے کوئی ایک محکمہ بھی پچھلے 40سالوں میں ایسا نہیں جہاں یہ وائرس نہ پہنچا ہو ۔ میں نے تو اس میں کرپشن کو بڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔اس وائرس کی علامات ظاہر ہونی شروع ہوجائیں تو سمجھیں آپ اشرافیہ کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں بس آپ ثابت قدم رہیں اور اپنے اپنے باس کو خوش رکھیںصدر یا وزیر اعظم نہیں تو وزیر یا مشیر تو بن ہی سکتے ہیں۔

کچھ بات اس وائرس کی علامات کی۔ اس کی ابتدا ہوتی ہے خواب دیکھنے سے، راتوں رات امیر بننے کا خواب۔ ہمیں توبچپن میں سکھایا گیا کہ کھیلوگے کودو گے ہوگے خراب، پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب، یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ پڑھنے لکھنے والے لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں یا کسی راشی اور ان پڑھ افسر کے جونیئر ہیں۔ ایک بار میں نے ایک سابق آئی جی سے پوچھا کہ ایک افسر کتنا کمالیتا ہے۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ،اپنی اپنی صلاحیتوں پر منحصر ہے۔ مطلب یہ کہ کام توسب کرتے ہیں کچھ خاموشی سے کچھ کسی کی پروا کیے بغیر۔ایک زمانے میں جب کسی محکمے میں کرپشن کی اسٹوری اخبار میں آتی تھی تو کم ازکم کچھ ایکشن ہوجاتا تھا اب تو بات ایک ’ٹکر‘ سے آگے نہیں جاتی ۔

میں نے رپورٹنگ کےزمانے میں ایسے افسر بھی دیکھے ہیں جو کہتے تھے کہ انہوں نے کبھی کرپشن کے پیسے کو ہاتھ نہیں لگایا بس ٹیبل کی دراز کھلی رکھتے تھے کوئی اپنی خوشی سے دےگیا توشام کو گلوزپہن کر پیسے نکال لیتے تھے۔ آج تو گلوز بھی ہیں اور ماسک بھی ۔ اگر غلطی سے رشوت کے پیسے کو ہاتھ لگ جائے تو سینی ٹائزر استعمال کرلیں یا صابن سے ہاتھ دھولیں۔

اس وائرس کی علامات کمزور طبقے پر جلد ظاہر ہوجاتی ہیں اس لیے وہ پکڑے بھی جاتے ہیں ورنہ تو کیا کیا نہیں ہوا ہے اس ملک میں ۔ادھر ہاتھ ڈالو تو ہ کہتے ہیں ’ہمارا اپنا احتساب کا نظام ہے‘ ادھر دیکھوتوجواب آتا ہے،ہم خود اپنے لوگوں کا احتساب کرتے ہیں اب رہ جاتا ہے سیاست دان یا کچھ بیورو کریٹ مگر اس طبقے نے بھی سیکھ کرنہیں دیا، ایک زمانے میں وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا ہو یا اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو ، میلہ مویشیاںسج جاتا تھا۔ چھانگا مانگا سے مری ریسٹ ہاؤس تک ، مڈنائٹ جیکال سے لے کر مہران بینک اور اصغر خان کیس تک یہی ہوتا رہا ہے۔

زیادہ دور نہ جائیں2018 سے پہلے بلوچستان میں آنے والی تبدیلی ہو یا چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی یہی کاروبار آج بھی جاری وساری ہے۔وزیر اعظم صاحب آپ نے کہا تھا اور درست کہاتھا کہ آپ ایم این اے کے ترقیاتی فنڈز کیخلاف ہیں اور اسے کرپشن کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ پھر اب یہ یقین دہانیاں کیسی ناراض اراکین کو منانے کی خاطر کہاں گیا نظریہ اور اصول۔

ہم اصولوں کو بھی بازار میں لے آئے ہیں

اور پتا پوچھتے پھرتے ہیں خریداروں کا

مافیا کیخلاف جنگ مافیا کے کارندوں کو اپنے ساتھ ملا کر نہ لڑی جاسکتی ہے نہ ہی جیتی جاسکتی ہے۔ آپ نے یہ بھی درست کہا کہ پی پی پی اس لیے تباہ ہوئی کیونکہ وہ اپنے نظریہ سےہٹ گئی اور ہمیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی اگر ہم اپنے نظریہ پر ڈٹے رہیں اب ذرا خود غور کریں کہ آپ کی پارٹی اس نظریہ پر واقعی کھڑی ہے یا وہ بھی کہیں نہ کہیں وائرس کا شکار ہوگئی ہے۔ اصول قربانی مانگتے ہیں چاہے وہ مال کی ہو یا اقتدار کی۔ لوگ تو اصولوں کی خاطر جان تک دے دیتے ہیں۔

تازہ ترین