• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ہائیکورٹ، نیب ریفرنس میں کہیں نہیں کہا گیا کہ میر شکیل الرحمٰن نے کرپشن کی، وکیل صفائی امجد پرویز کے دلائل

نیب ریفرنس میں کہیں نہیں کہا گیا کہ میر شکیل الرحمٰن نے کرپشن کی، وکیل صفائی امجد پرویز


لاہور(نمائندہ جنگ)لاہور ہائیکورٹ جنگ گروپ اور جیو نیٹ ورک کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت پر آج بھی سماعت جاری رکھے گا۔

مسٹر جسٹس سردار احمد نعیم اور مسٹر جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے گزشتہ روز میر شکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت پر ایک گھنٹہ سے زیادہ دیر تک سماعت کی۔

میر شکیل الرحمٰن کی طرف سے معروف قانون دان امجد پرویز نے دلائل دیئے کہ نیب کی طرف سے دائر ریفرنس میں میر شکیل الرحمن کے خلاف ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ میر شکیل الرحمٰن کرپشن کے مرتکب ہوئے ہیں۔ 

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے کہا کہ یہ معاملہ الاٹی اوراتھارٹی کے درمیان ہے. دونوں میں سے کسی کو اعتراض نہیں تو34سال بعد شکایت کنندہ کہاں سے آ گیا۔

قبل ازیں پاکستان بار کونسل کے فیصلہ کے تحت ملک بھر کے وکلا کے نمائندے سینئر قانون دان آزادی صحافت کے تحفظ اور میر شکیل الرحمان اور صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ ،سپریم کورٹ بار کے صدر قلب حسن اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر طاہر نصراللہ وڑائچ کے علاوہ سینئر قانون دان وکلا سینئر صحافیوں صحافی تنظیموں کے عہدیداروں اور سول سوسائٹی کے ارکان کی بڑی تعداد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھی۔

سماعت شروع ہونے پر میر شکیل الرحمن کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ میر شکیل الرحمٰن کیخلاف دائر ریفرنس کو بھی ضمانت کی درخواست میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔

ریفرنس میں ایک بھی لفظ ایسا نہیں جو ثابت کرتا ہو کہ میر شکیل الرحمن کرپشن کے مرتکب ہوئے ہیں جبکہ ریفرنس میں جن دوسری شخصیات اس وقت کے وزیراعلی میاں محمد نواز شریف ،اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے اور ڈائریکٹر لینڈ پر اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

ان کے نہ تو وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے ہیں نہ ہی ان کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ میر شکیل الرحمن کو گرفتار کرکے امتیازی سلوک کیا گیا. میر شکیل الرحمن کے پاس کبھی کوئی سرکاری عہدہ نہیں رہا اور نہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے کسی پبلک آفس ہولڈر سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھایا۔

نیب نے بے بنیاد اورجھوٹے مقدمے میں میر شکیل الرحمن کو گرفتار کیا ہے امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ موجع نیاز بیگ میں محمد علی نامی شہری کی اراضی جوہر ٹاؤن فیز ٹو بنانے کے لئے لی گئی. ان کے سات وارثان نے میر شکیل الرحمن کے ساتھ سیلز ایگریمنٹ کیا۔

22 مئی 1983 کو مختار عام کو رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ کروایا گیا . 4 جون 1986 کو میر شکیل نے ڈی جی ایل ڈی اے کو عبوری ڈویلپنٹ کیلئے درخواست دی تھی. اس کے علاوہ اور کوئی درخواست جمع نہیں کرائی گئی اور ان کا جرم یہ ہے کہ اس درخواست پر ان کے دستخط ہیں۔

ڈی جی ایل ڈی اے کے نام درخواست میں یہ کہا گیا کہ درخواست گزار کو عبوری ڈویلپمنٹ کی اجازت دی جائے بیان حلفی اور مختار نامہ بھی اس درخواست کے ساتھ لف کیا گیا مگر یہ درخواست مسترد کر دی گئی. اس کے بعد ڈائریکٹر لینڈ کی طرف سے ایک لیٹر 22جولائی 1986کو بذریعہ میر شکیل الرحمن جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ 50 ہزار روپے فی کنال کے حساب سے چارجز اور اضافی اراضی کے پالیسی کے مطابق واجبات ادا کیے جائیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ میر شکیل الرحمن نے اس لیٹر کی تمام شرائط پوری کیں اور ایک ایک دھیلا جمع کرایا گیا. یہ تمام واجبات ادا ہونے کے بعد قانون کے مطابق یہ اراضی اوریجنل مالکان کو ایگزیمپٹ ہوئی. یہ ایل ڈی اے اور زمین کے مالکان کے درمیان سول معاہدہ تھا جس میں میرے موکل کے پاس زمین کے مالکان کا مختار نامہ تھا۔

گزشتہ 34سال کے دوران میرے موکل، زمین مالکان یا ایل ڈی اے کے درمیان کبھی کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا مگر اچانک غیر متعلقہ شخص کی شکایت پر نیب نے کارروائی شروع کر دی۔ 

میرے موکل کو شکایت کی تصدیق کے لئےنیب کے دفتر طلب کر لیا اور اسی تصدیقی مرحلہ پر گرفتار بھی کر لیا امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ 1986 سے لے کر 2020تک مکمل خاموشی رہی. اراضی کے اوریجنل مالکان یا ایل ڈی اے نے بھی اس سول ٹرانزیکشن کے خلاف نہ تو کوئی شکایت کی اور نہ ہی کوئی اعتراض اٹھایا گیا۔

امجد پرویز نے کہا کہ میں نے اس کیس کی مثل معائنہ کی ہے. ریکارڈ پر اس بارے میں نہ تو کوئی شکایت ہے نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی اس کے خلاف آج تک کسی فورم پر کوئی کارروائی ہوئی انھوں نے کہا کہ یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ میر شکیل الرحمن کے خلاف نیب میں ایل ڈی اے بھی مدعی نہیں ہے. اب34سال بعد درخواست گزار کو ایک نوٹس موصول ہوتا ہے کہ نیب میں ریکارڈ سمیت پیش ہوں۔

امجد پرویز نے کہا کہ میر شکیل الرحمن قانون کی پابندی کرنے والے شہری ہیں وہ آئین اور قانون کا احترام کرتے ہیں انھوں نے سارا ریکارڈ اٹھایا اور نیب کے دفتر چلے گئے اور وہاں جاکر نیب کی ٹیم کو تمام حقائق سے آگاہ کیا ان کے تمام سوالوں کے جوابات دیئے اس کے بعد 5 مارچ کو نوٹس آتاہے کہ 12مارچ کو نیب میں پیش ہوں اس نوٹس میں لکھا ہے کہ کیس ویری فکیشن سٹیج پر ہے درخواست گزار پھر نیب کے سامنے خود جاتے ہیں۔ 

بنچ کے سربراہ مسٹر جسٹس سردار احمد نعیم نے استفسار کیا کہ میر شکیل الرحمن کو گرفتار کب کیا گیا. امجد پرویز نے کہا کہ درخواست گزار شکایت کی ویری فکیشن کے مرحلہ پر 12مارچ کو پیش ہوتے ہیں تو انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس کے باوجود کہ یہ معاملہ لاہور میں چل رہا ہے اور معاملہ ابھی ویری فکیشن مرحلہ پر ہے۔

نیب اسلام آباد سے درخواست گزار کے وارنٹ گرفتاری جاری دیتا ہے جو سراسر غیر قانونی اور اعلی عدلیہ کے فیصلوں کے منافی ہے سپریم کورٹ سمیت ملک بھر کی اعلی عدلیہ کے متعدد فیصلے موجود ہیں جن میں قرار دیا گیا کہ انکوائری کے دوران جلد بازی میں نوٹس دینا بھی قانون کی منشا کے منافی ہے مگر اس کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے مائنڈ اپلائی ہی نہیں کیا گیا. پنجاب حکومت نے 54 پلاٹس کی ایگزمپشن قانون کے مطابق دی 1986سے لیکر آج تک ایل ڈی اے خاموش رہی اور 34 سال بعد کیس شروع کر دیا گیا۔ 

ایل ڈی اے کو آج تک اس مختار عام اور ایگزمپشن پر کوئی اعتراض نہیں رہا ہے.یہاں تک کہ ایل ڈی اے اس کیس کا مدعی بھی نہیں ہے، ریفرنس میں میر شکیل پر جوہر ٹائون میں 54 کنال اراضی کے سلسلے میں ایگزمپشن پالیسی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ریفرنس میں میر شکیل الرحمن پر قومی خزانے کو 143 ملین روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا ہے مگر ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ درخواست گزار نے کسی افسر کو رشوت دی ہو یا کسی سے رشوت لی ہو۔

میر شکیل الرحمن کے خلاف تمام کارروائی جلد بازی میں غیر قانونی طور پر غیر منصفانہ اور غیر مساویانہ طریقہ پر کی گئی اور نیب کی ایسی کارروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ سمیت ملک کی اعلی عدلیہ کے درجنوں فیصلے موجود ہیں کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں کہ میر شکیل نے پبلک آفس ہولڈر سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل کیا ہو. نیب آرڈیننس کی دفعہ 9 اے کی ضمنی دفعہ 6 کے تحت پبلک آفس ہولڈر کا جرم نہیں بنتا۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ جن کیخلاف اختیارات سے تجاوز کا الزام لگایا ہے انکے وارنٹ گرفتاری ہی جاری نہیں کئے گئےمرکزی ملزم کو گرفتار نہ کرنا اور میر شکیل کو گرفتار کرنا امتیازی سلوک ہے، مرکزی اور شریک ملزموں نواز شریف، ہمایوں فیض رسول اور بشیر احمد کو گرفتار نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے،اسفند یار ولی کیس میں بھی سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ اختیارات کا جلد بازی،غیر منصفانہ اور غیر مساویانہ استعمال غیر قانونی ہے۔

امجد پرویز ایدووکیٹ نے کہا کہ 1957سے ایک بحث چل رہی ہے کہ اگر ایک جرم کی جزا اور سزا میں دو مختلف قوانین کے تحت فرق ہو تو کونسا قانون لاگو ہوگا. موجودہ کیس میں بھی ایک جرم پر دو مختلف قوانین میں مختلف جزا اور سزا ہے. اگر دلائل کیلئے یہ مان لیا جائے کہ ایگزمپشن پالیسی کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو تب بھی یہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا بلکہ اس پر ایل ڈی اے کا قانون لاگو ہوگا کیونکہ وہی اصل قانون ہے۔

یہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا مریم نواز کے کیس میں بھی دو قوانین کے اطلاق کا نکتہ تھا جس میں عدالت نے ملزمہ مریم نواز کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا، ان کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے سماعت بدھ کی صبح تک ملتوی کر دی. آج بھی امجد پرویز ایڈووکیٹ اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ 

سماعت کے دوران پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹوکمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ، سپریم کورٹ بار کے صدر قلب حسن اور لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر طاہر نصراللہ ورائچ روسٹرم پر آئے اور عدالت سے کہا کہ بار صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے آئی ہے کیونکہ ملک میں ایسے معاملات ہو رہے ہیں جو کسی آئینی و قانونی ضابطے میں نہیں آتے، جلد بازی میں فیصلے ہورہے ہیں اور قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جلد بازی سے انصاف نہیں ہوتا لہذا بار کی استدعا ہے کہ عدالت آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نوٹس لینے کی روایت برقرار رکھے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر سید قلب حسن نے کہا کہ ایل ڈی اے نے اپنے ا یگزمپشن قوانین کے تحت ایک تہائی پلاٹ دیئے اس میں میر شکیل الرحمن کا قصور کیسے بنتا ہے پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ معاملہ اتھارٹی اور الاٹی کے درمیاں ہے دونوں میں سے کسی کو اعتراض نہیں تو اب تین دہائیوں بعد شکایت کنندہ کہاں سے آ گیا۔

میر شکیل الرحمن کی درخواست ضمانت کی کارروائی کے دوران نمائیدہ وکلا اور سیاستدان صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

تازہ ترین