اسلام آباد (عمر چیمہ) گزشتہ تین سال کے دوران عابد حسین ایک ایسا شخص ہے جس کا نام سیاست دانوں کیخلاف ہونے والی ہائی پروفائل انکوائریوں میں سامنے آیا ہے اور اب تک یہ شخص بچا ہوا ہے۔
پاناما پیپرز کی جے آئی ٹی میں ان کا نام ایسے کردار کے طور پر سامنے آیا جو چکمہ دے رہا تھا اور ابتدائی طور پر اس نے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔
اس کے بعد جعلی اکائونٹس کیس میں ان کا نام ایسے شخص کے طور پر سامنے آیا جس نے فراڈ کیلئے بینک قائم کیے۔ تازہ ترین تحقیقات میں شوگر کمیشن نے ان کے کردار کی نشاندہی ایسے شخص کے طور پر کی ہے جو جہانگیر ترین اور چینی کے بڑے ناموں کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔
یہ انتہائی قابل اعتراض بات ہے اور اس کی جامع انداز سے اور آزادنہ تحقیقات کرنا چاہئے۔ نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا، آصف زرداری پر فرد جرم عائد ہونا ہے جبکہ جہانگیر ترین کا مستقبل بھی غیر یقینی کا شکار ہے لیکن عابد نامی یہ شخص احتساب سے بچتا آ رہا ہے۔
عابد حسین سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی کارپوریٹ سپرویژن ڈویژن (سی ایس ڈی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ سی ایس ڈی کارپوریٹ ریکارڈز کا محافظ ادارہ سمجھا جاتا ہے اور ان میں شوگر کمیشن، پاناما پیپرز کی جے آئی ٹی اور جعلی اکائونٹس کیس کی جے آئی ٹی جیسے ریکارڈز بھی شامل ہیں۔ شوگر کمیشن میں پیش کیے گئے ریکارڈ میں ان کا کردار مشکوک رہا ہے۔
کمیشن سے جب پوچھا گیا کہ جن 6؍ شوگر ملوں کے نام انکوائر میں لیے جا رہے ہیں؛ ان کیخلاف کیا کارروائی کی گئی تو کمیشن کا جواب مضحکہ خیز تھا۔ العربیہ شوگر مل کو نوٹس بھیجا گیا کہ ا سنے کمپنی کی ویب سائٹ کیوں نہیں بنائی اور بینیفشل اونرشپ کا نام بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔
اس وقت جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کو صرف اس بات پر نوٹس دیا گیا کہ کمپنی نے اردو زبان میں اپنی ویب سائٹ کیوں نہیں بنائی، لیکن اُن کی فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ میں کی گئی قابل اعتراض سرمایہ کاری پر کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ جہانگیر ترین فاروقی ملز میں اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ شریک مالک تھے اور 1991ء میں اپنے قیام کے بعد سے یہ ادارہ غیر فعال رہا ہے۔
فاروقی ملز کو تین مرتبہ ٹرائل پر 1997، 2012 اور 2013ء میں چلایا گیا اور کوئی ٹرائل کامیاب نہیں ہوا۔ جب جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز نام کی پبلک لمیٹڈ کمپنی نے 2014ء میں اور 2016ء میں 2593.93 ملین روپے کی ایکوئٹی سرمایہ کاری کی، یہ جانتے ہوئے کہ یہ غیر فعال ہے، تو جے ڈی ڈبلیو نے اپنے شیئر ہولڈرز کو یہ معلومات فراہم نہیں کی جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا پیسہ انہیں اعتماد میں لیے بغیر استعمال کیا گیا۔
ایس ای سی پی کے سینئر افسران نے انہیں اس حوالے سے آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود چھوٹے شیئرہولڈرز کے تحفظ کیلئے عابد حسین کوئی کارروائی نہ کی۔ اس کی بجائے، انہوں نے فیصلہ کرنے میں سات ماہ تاخیر کی اور اس کے بعد کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا۔
شوگر کمیشن کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایس ای سی پی کی طرف سے فراہم کیا جانے والے ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ مسٹر عابد حسین، ایگزیکٹو ڈائریکٹر سی ایس ڈی، نے غیر معمولی انداز سے سات ماہ تاخیر اور کوئی جائزہ لیے بغیر اور قانونی رائے لیے بغیر جے ڈی ڈبلیو اور فاروقی ملز کا غلط بیانی اور معلومات چھپانے کا کیس بند کر دیا۔
رپورٹ میں مل مالکان اور بورڈ ممبرز کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ساتھ ہی تجویز دی گئی تھی کہ عابد حسین کیخلاف تحقیقات کی جائیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر اور فراڈ کرتے ہوئے عوام کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
لیکن اس کے باوجود اب تک عابد حسین کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایس ای سی پی کے ایک افسر نے بتایا کہ ایس ای سی پی بورڈ سے اس بات کی اجازت لے لی گئی تھی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کر دیا۔
قواعد کے تحت ایس ای سی پی کو عابد حسین کیخلاف کسی بھی انکوائری کے آغاز کیلئے کسی بورڈ کی اجازت درکار نہیں ہے کیونکہ وہ سی ایس ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور ایس ای سی پی کے قواعد اجازت دیتے ہیں کہ بورڈ کی منظوری کے بغیر ہی ان کیخلاف انوسٹی گیشن شروع کی جا سکے۔
جب ان سے مزید سوالات کیے گئے تو مذکورہ افسر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے معلومات چھپانے کے حوالے سے جے ڈبلیو ڈی اور فاروقی ملز کے متعلق سوالات کا جواب بھی نہیں دیا۔
نگران ادارے میں نگرانی کے کام کی بجائے کارپوریٹ جرائم میں مدد فراہم کرنے کا معاملہ پہلا نہیں ہے۔