• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ایک مملکت کے معیار اور وقار کا تمام تر انحصار وہاں کی ’’حکومت و سیاست‘‘ پر ہوتا ہے۔ جیسی سیاست ویسی حکومت، جیسی حکومت ویسا ہی اس کا اندازحکمرانی (گورننس) جیسی گورننس، ویسے ہی ریاستی ادارے۔ عوام الناس کے اطمینان اور بے چینی کا درجہ (ڈگری) عوامی خدمات کے اداروں کی سکت، استعداد، کارکردگی اور شفافیت پر منحصر۔ اداروں میں یہ چار اجزا جتنے زیادہ ہوں گے عوام اتنے مطمئن، جتنے کم ہوں گے عوامی اضطراب اتنا زیادہ ہوگا‘‘۔ اس امر کی تصدیق کرنی ہو تو پاکستان کی سیاست و حکومت، گورننس، اداروں کے معیار اور عوام کے اطمینان و بے چینی کی کیفیت کا سائنٹفک جائزہ لےلیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ میڈیا کافی حد تک ادھر آگیا تھا، اب وہ بھی بیڈ گورننس کی زد میں آ کر کوئی اور ہی رنگ پکڑ رہا ہے، ارتقائی عملی رک گیا، بیمار سیاسی عمل کی سراپا منفی کج بحثی بڑے بڑے عیوب کے لئے آئیڈیل حد تک ڈھال بنی ہوئی ہے۔گڈ اور بیڈ گورننس کو اپنے ایجنڈے میں جگہ دینے والے ابلاغی ادارے معتوب اور مخصوص ’’سیاسی ضرورتیں‘‘ پوری کرنے اور مائنڈسیٹ کو مطمئن رکھنے والا غیر جمہوری ایجنڈا غلبہ پا رہا ہے۔ امور حکمرانی کی سمت درست کرنے میں میڈیا کی سرگرمی بہ حیثیت مجموعی کمزور پڑی ہے تو عدلیہ اک بار پھر کچھ چوکس ہوتی معلوم دے رہی ہے۔ تازہ ترین عدالتی نوٹسز ملاحظہ ہوں۔

لاکھڑا کول مائننگ پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے نیب کیسز کے فیصلے نہ ہونے پر روایتی ’’اظہاربرہمی‘‘ ہی نہیں کیابلکہ اصلاح احوال کا بھی کچھ اہم ساماں کیا ہے۔ جج صاحب نے نیب کی مایوس ترین کارکردگی پر یہ معنی خیز ریمارکس دیتے ہوئے کہ ’’نیب کا ادارہ نہیں چل رہا‘‘ سوال اٹھایا کہ کیوں نہ نیب عدالتیں بند کر دی جائیں؟ اور نیب قانون کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے؟ فاضل عدالت نے نیب کے بڑے عیوب کی نشاندہی کی بلکہ حکم دیا کہ زیر سماعت ریفرنس کا فیصلہ قانون کے مطابق تین ماہ میں کردیا جائے۔ فرمایا، مقدمے درج ہو رہے ہیں، فیصلے نہیں، یہی ہونا ہے تو کیوں نہ نیب اور احتساب عدالتیں بند کردیں۔ موجودہ رفتار سے زیر التوا 1226 ریفرنس نمٹانے میں تو ایک صدی لگ جائے گی‘‘۔جج صاحب نے سیکرٹری قانون کو بھی طلب کرلیا اور چیئرمین نیب کو اپنے دستخط سے تجاویز جمع کرانے کا حکم دیا۔ پھر واضح کیا 2001 کا مقدمہ ہے۔ بندہ بھی فوت ہو چکا۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں فیصلے نہیں ہو رہے، لاہور میں 300 نیب ریفرنس زیر التوا ہیں۔ فاضل جج نے فقط ’’نیب‘‘ کی موجود حالت زار کا پوسٹ مارٹم ہی نہیں کیا، بلکہ 120نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کا بھی حکم دیا۔

ادھر لاہور ہائی کورٹ میں ’’پٹرول بحران کیس‘‘ کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاسم خان نے وفاق میںاور پنجاب حکومت کی بیڈ گورننس کا ایسا پوسٹ مارٹم کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ بزدار اور ان کی گورننس پر کتنی ہی جانب سے طرح طرح کی مسلسل تنقید ایک طرف اور لاہور ہائی کورٹ کا کیا گیا پوسٹ مارٹم اس پر کتنا بھاری ہے، ملاحظہ ہو۔ پٹرول بحران وفاقی حکومت کی خراب گورننس کی انتہا ہے۔ سرکاری ریکارڈ چھپانے کی کوشش کی تو سخت کارروائی کریں گے۔ ایک اور کیس کی سماعت میں انہوں نے پنجاب حکومت کے ڈپٹی کمشنرز کو عدالتی اختیارات دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے نوٹیفیکیشن کو معطل کرنے کا حکم دیا۔ پنجاب میں سسٹم کا بیڑا غرق کردیا، اس نے عدالتوں میں تماشا لگا رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ایگزیکٹو عدلیہ کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتی دونوں کے الگ الگ اختیارات ہیں۔ آخر گڈ گورننس ہے کیا؟ مجھے پٹرول بحران کمیشن کے لئے مضبوط نام لوگ چاہئیں ورنہ عدالت نام تجویز کرے گی۔

حکومت وفاقی ہو یا پنجاب کی ، ملک کی ہر دو اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان نے گڈ گورننس کے فقدان اور بیڈ گورننس کے کھلواڑ کی واضح نشاندہی کی ہے۔ نیب کے جتنے عیوب سپریم کورٹ آف پاکستان کی متذکرہ سماعت میں واضح کئے گئے اور جو کچھ پنجاب کی بیڈ گورننس کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں بےنقاب ہوا، وہ سیاسی ابلاغ اور میڈیا میںتو پہلے بھی آ رہا ہے لیکن اب چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وفاق اور پنجاب میں گورننس کی جس مایوس کن صورت حال کی نشاندہی کی ہے وہ وزیر اعظم عمران خان کے لئے شدت سے توجہ طلب ہے۔ یہ درست کہ عمران خان اب عالمی سطح پر پاکستان کے سب سے محترم قابل قبول اور متاثر کرنے والی قیادت ہیں لیکن ’’نیب‘‘ کی آزادی اور اس کے کام میں عدم مداخلت کی محدود سوچ سے انہوں نے نیب کو بتا دیا، ان کی گورننس کو براہ راست چیلنج بنتا ہے کہ ان کے پسندیدہ اور سیاست کے محور (احتساب) سے متعلق ادارہ پانامہ کے بعد اہمیت اختیار کرنے کے بعد ان کے دور میں عیوب سے اٹا پڑا ہے۔ نیب عدالت کے ایک جج صاحب معطل ہوگئے۔ ایک اور نیب کے وقار اور اعتبار کوضرب لگانے والی متنازعہ وڈیو پر کوئی کمیٹی بننی تھی یا بنی تھی، پتہ نہیں کیا بنا؟اور تو اور ’’نیب‘‘ میڈیا کو دبانے کے لئے حکومت کا ٹول بن گئی، میر شکیل الرحمٰن کیس اس کی واضح اور جاندار مثال ہے۔ نہ جانے سپریم کورٹ کے سابق تجربہ کار اور متفقہ چیئرمین کی موجودگی میں نیب، عیب کیوں دکھائی دے رہی ہے؟ اتنی کہ اندازہ دونوں اعلیٰ ترین ملکی عدالتوں کے متذکرہ (نیب کے) ’’پوسٹ مارٹم‘‘ سے کرلیا جائے۔ یہ سارا معاملہ ہے تو گورننس کا ہی جس کا نوٹس سپریم کورٹ نے بڑی ذمے داری سے نیب کے حوالے سے لیا۔

تازہ ترین