سیّد ناصر زیدی 3جولائی 2020 کو اسلام آباد میں انتقال فرماگئے۔ سیّدناصر زیدی کسی تعارف کے محتاج تو نہیں ہیں مگر پھر بھی یہاں اُن کا مختصر تعارف کرانا ضروری سمجھتی ہوں۔ ناصر زیدی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ محقق، کالم نگار، مدیر، ٹی وی اور ریڈیو کے جانے پہچانے کمپیئر تھے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم پاکستان ہائی اسکول موہن پورہ راولپنڈی سے حاصل کی۔ پانچویں جماعت میں تھے کہ وہ ماڈل ٹائون لاہور آگئے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول وحدت کالونی سے میٹرک کا امتحان نمایاں حیثیت سے پاس کیا۔ ایف اے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے کیا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا۔
ناصرزیدی کے بچپن کے دوست عطاء الحق قاسمی تھے جس کے ساتھ اُنہوں نے اپنا بچپن گزارا۔ وہ بارہ تیرہ برس کے تھے کہ اُنہوں نے اپنے بچپن کے دوست عطاء الحق قاسمی کے ساتھ آٹھویں نویں کلاس ہی میں خود کو باقاعدہ شاعر کہلوانا اور سمجھنا شروع کردیا تھا۔ وہ خود بتایا کرتے کہ اُنہوں نے کبھی بھی نوکری کے لیے کہیں بھی تحریری درخواست نہیں دی تھی۔ ناصرزیدی نے آج تک جتنے بھی کام کیے سب زیادہ تر ادب و صحافت سے متعلق تھے۔ وہ 18کے قریب رسائل و جرائد کے ایڈیٹر رہے۔ اُنہوں نے اُنیسویں گریڈ میں ’’سپیچ رائٹر ٹو دی پرائم منسٹر‘‘ کے طور پر مختلف وزرائے اعظم کے ساتھ بارہ سال گزارے۔ اس کے علاوہ ٹی وی، ریڈیو پر مشاعروں کی نظامت اور ہمہ جہت آئوٹ اسٹینڈنگ ٹیلنٹ کے طور پر وابستگی رہی۔ انہوں نے نیوزکاسٹر اور براڈکاسٹر کے فرائض بھی انجام دئیے۔ ناصرزیدی نے ریڈیوپاکستان میں متنوع کام کیا۔ انہیں آڈٹ اٹینڈنگ کیٹگری کے طور پر کئی اعزازات اور ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
ریڈیوپاکستان کے ’’یادِ باغ‘‘ میں اُن کے ہاتھ سے لگایا ہوا پودا آج بھی اپنی ایستادہ حالت میں سرسبزو شاداب ہے۔ وہ ان دنوں ادبِ لطیف کے مدیراعلیٰ تھے اور اس ماہ اس رسالے کی سرپرست صدیقہ بیگم کا نمبر نکال رہے تھے۔ جبکہ اگلے ماہ احمدفراز کی سالگرہ پر ان کے نمبر کی بھی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں۔ افسوس ان کو موت نے مہلت نہ دی۔ اُن کی تصانیف میں ’’ڈوبتے چاند کا منظر‘‘، ’’وصال‘‘، ’’التفات‘‘ اُن کے شعری مجموعے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ ڈیڑھ درجن مختلف کتب کے مؤلف اور مرتب رہے۔ جن میں ’’وہ رہبر ہمارا وہ قائد ہمارا‘‘ اور علامہ اقبال کے بارے میں ’’بیادِ شاعر مشرق‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ناصرزیدی صاحب سے ہمارے خاندان یعنی صوفی تبسم (دادا) سے پوتی تک کا سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ وہ ہمارے گھر اکثر آتے اور داداجان سے گفتگو کرتے کاغذات کا تبادلہ ہوتا اور وہ چلے جاتے۔ داداجی کے زمانے سے ناصرزیدی صاحب کے حوالے سے یادداشت میں ایسے ہی چند لحظات جھلملاتے نظر آتے ہیں۔ وہ داداجان کی وفات کے بعد میرے چچا پروفیسر صوفی نثار احمد اور میرے والد محترم پروفیسر صوفی گلزاراحمد سے بھی اکثر ملتے رہتے۔ صوفی تبسم کی شخصیت فن اور تحاریر کے حوالے سے میرے بزرگوں سے ملاقات کے دوران مسلسل اُن کی معاونت کرنے کا کام بھی ناصرزیدی صاحب سرانجام دیا کرتے تھے۔ انہوں نے صوفی تبسم اکیڈمی کے حوالے سے ہمیشہ اچھی تجاویز بھی دیں یوں اس خانوادے سے اُن کا تعلق مزید ہماری سمجھ میں آتا چلا گیا۔ ناصرزیدی صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو میں بھی افسانے اور شاعری لکھ رہی تھی۔ انہوں نے میرے والد کی طرح مجھے بے حد محبت اور پیار سے میری سرپرستی کی اور اُردو کے تلفظ سے لے کر اُردو کی تحریروں میں بھی کئی مرحلوں پر میری رہنمائی فرمائی۔ میری افسانوں کی کتاب ’’حیرت و مستی‘ کا دیباچہ بھی اُنہوں نے تحریر کیا۔ وہ میری بولڈ تحریروں پر بعض اوقات حیران بھی ہوتے۔ شاعری کی کتاب ’’لیکن جانا پار تو ہے‘‘ کا فلیپ بھی اُنہوں نے ہی تحریر کیا۔ پھر کئی برسوں کا سفر یوں بھی گزرا کہ وہ بھی ریڈیوپاکستان لاہور بہت سے پروگرام کرتے خاص طور پر ’’تخلیق‘‘ جس کی پروڈیوسر عفت علوی صاحبہ تھیں اور میں فوجی بھائیوں کا پروگرام ’’پاسبان‘‘ کیا کرتی کئی مواقع ایسے بھی آئے جب مجھ ناچیز کو اُن کی صدارت میں منعقدہ مشاعروں میں اپنی شاعری پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
وہ موت سے واقعی نہیں ڈرے اور اپنے بیٹے عدیل ناصر زیدی سے باتیں کرتے کرتے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی اُن کا چہرہ آج بھی بارعب تھا وہ تازہ دم مسکراتے کھلتے چہرے کے ساتھ خاک کی آغوش میں چلے گئے بالکل ویسے جیسے ماں اپنے شیرخوار بچے کو اپنی گود میں لے لیتی ہے۔
ناصر زیدی صاحب کے لیے الوداعیہ کلمات میں اپنے جذبات کا اظہار
’’وہ ایک شاعر‘‘
وہ ایک شاعر کہ مدتوں تک مجھے رہا انتظار جس کا
کہ میں یہ دیکھوں
بھلا کوئی کس طرح سے آخر
سمیٹ لیتا ہے سوچ کے بکھرے موتیوں کو
قلم سے کاغذ پہ خوبصورت حسین پیکر
انڈیل دیتا ہے جب بھی چاہے
میں ایک دن اس سے جا ملی تھی
نجانے کتنے ہی مخمصوں میں گھری ہوئی تھی
قباحتوں نے جکڑ کے مجھ کو
مہیب گھیرے میں لے لیا تھا
میں محو دیدار چپ کھڑی تھی
مگر وہ مجھ سے ملا تو ایسے
کہ ساری الجھن سلجھ گئی تھی
میں اس کی شان قلندری سے بہت ہی محظوظ ہو رہی تھی
پھر ایک دن وہ یونہی اچانک ہمارے گھر کے اُداس آنگن میں آ کے بیٹھا
عجب سی خوشبو لٹا کے بیٹھا
لگن کی دھونی رما کے بیٹھا
میری عقیدت کی ساری سوچوں کو ایک مرکز
پہ لا کے بیٹھا!
میں کیا ہوں؟
کیوں ہوں؟
وجودِ خاکی میں کس لیے ہوں!
میں خود سے اکثر سوال کرتی
عدم سے موجود کے سفر میں
میں دل ہی دل میں ملال کرتی
مگر مجھے اب یقین واثق سا ہو چلا ہے
کہ اس نے مجھ کو جو خود سے چھو کر
یہ جاں سے پیارا قلم دیا ہے
کہ اس سے پہلے
جو میری ہستی میں اِک خلا تھا
اسے تخیل سے بھر دیا ہے
میں اس قلم سے ہر ایک مصرعے کو
اپنے تازہ لہو سے اک دن اجال دوں گی
اسی قلم سے میں زندگی کے
حسین خوابوں کو زندہ پیکر میں ڈھال دوں گی!