• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیپاٹائٹس: شعور و آگہی میں اضافہ ہی نہیں، اسکریننگ بھی عام کی جائے

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال دنیا بَھر میں 28جولائی کو ’’ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے‘‘ ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ رواں برس2018ء کا تھیم دہرایا گیا ہے، جو "Find the Missing Millions"ہے۔دراصل ہیپاٹائٹس کامرض ابتدائی طور پر جگر کوبہت زیادہ متاثر نہیں کرتا ہے ،مگر بعدازاں متعدّدخرابیوں کا سبب بن جاتا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ دُنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی ہیپاٹائٹس کے متعلق معلومات نہ ہونے کےباعث اس کی ابتدائی علامات نظر انداز کردی جاتی ہیں اور جب مرض پیچیدہ ہوجاتا ہے، تب معالج سے رجوع کیا جاتا ہے۔اسی لیےامسال 2018ء ہی کا تھیم دہرایا جارہاہے، تاکہ مرض سے متعلق معلومات عام کرنے کے ساتھ اسکریننگ کے ذریعے نئے کیسز تشخیص کرکے مریضوں کو سستا اور مؤثر علاج فراہم کیا جائے اور یوں مریضوں کی تعداد اور اموات کی شرح میں کمی لائی جاسکے۔عالمی یوم کی مناسبت سےزیرِ نظر مضمون میں مرض سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات بیان کی جارہی ہیں۔

شعبۂ طب میں جسمانی افعال کے اعتبار سےدِل، دماغ اور پھیپھڑوں کا شمار اعضائے رئیسہ میں کیا جاتا تھا،مگراب گُردوںاور جگرکا شمار بھی اعضائے رئیسہ میں کیاجانے لگا ہے۔عمومی طور پر اگردِ ل، دماغ اور پھیپھڑوں کے افعال میں کوئی گڑبڑ واقع ہوجائے، تو مصنوعی طریقے سےانہیںبحال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ اگر مریض کا دِل دھڑک رہا ہو، لیکن سانس کی آمد و رفت معطّل ہوجائے، تو وینٹی لیٹر لگادیا جاتا ہے اور یہ مصنوعی تنفّس سانس کی بحالی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔اِسی طرح دِل کے افعال کو بھی عارضی طور پربحال رکھنا ممکن ہے۔گُردے فیل ہوجائیں،تو ڈائی لیسزیاپیوندکاری کی جاسکتی ہے، لیکن جگر کے لیےتاحال کوئی ایسی کوئی مشین متعارف نہیں کروائی جاسکی،جسےاستعمال کرکے جگر کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔ یعنی جگر کے افعال میں توازن برقرار نہ رہے، تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

جگر، جسم کا ایک اہم اور نازک عضو ہے، جو پسلیوں کے نیچے دائیں جانب بالائی حصّے میں واقع ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے خون کے فاسد اور زہریلے مادّوں کی صفائی کا کام خودکار طریقے سےانجام پاتا ہے،جب کہ اس کےدیگر افعال میں مختلف قسم کی لحمیات اور خون جمانے والے مادّے بنانا،اہم اجزاء ذخیرہ کرنا ،بائل کے ذریعے ہاضمے میں مدد دینا اورآنتوں کے ذریعے فاسد مادّوں کااخراج وغیرہ شامل ہیں۔جگر کو جسم میںگودام کی بھی حیثیت حاصل ہے کہ یہ بیک وقت فیکٹری اور ویئر ہائوس کا کام انجام دیتا ہے۔

یعنی غذا ذخیرہ کرنے کے بعدا س سےفاسد مادّےالگ کرکے اسے جسم کے لیے قابلِ استعمال بناتا ہے۔جگر کے افعال متاثر ہونے کی دوبنیادی وجو ہ ہیں۔ایک الکحل کا استعمال اور دوم ،وائرسز کا حملہ۔طبّی سائنس نے آسانی کےلیےان وائرسز کو مختلف نام دے دئیے ہیںمثلاًاے ،بی ،سی، ڈی،ای وغیرہ۔یاد رہے ، ہیپاٹائٹس خالصتاً جگر کا عارضہ ہے اور ان وائرسزمیں سے تین ایسے ہیں کہ جن کی اگر بروقت تشخیص اور درست علاج نہ ہو، تو جان لیو ا ثابت ہوسکتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس اے کا وائرس منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوکرپیشاب اور فضلے کے ذریعے خارج ہوجاتا ہے۔ اس وائرس سے بچائو کی ویکسین موجود ہے ،لیکن ہمارےیہاں استعمال نہیں کی جاتی اور نہ ہی بین الاقوامی طور پر اسے کچھ زیادہ پذیرائی حاصل ہوسکی،کیوں کہ ہیپاٹائٹس کی یہ قسم اپنی مدّت (عموماً 2 سے 8ہفتے)پوری کرکے ازخود ٹھیک ہوجاتی ہے اور موذی بھی نہیں ہے۔ ہمارے مُلک کی لگ بھگ98 فی صد آبادی اس وائرس کا بچپن ہی میںشکار ہو جاتی ہے۔ 

پاکستان میں ہیپاٹائٹس اے بچّوں میں سب سے زیادہ پائے جانے والے ہیپاٹائٹس انفیکشنز میں سے ایک ہے۔ بچپن میں چوں کہ جگر تقریباً چھےگنا زیادہ کام کرتا ہے، اس لیے 2سال سےلےکر8یا10سال کی عُمرتک یہ مرض ایک بار ضرور لاحق ہوتا ہے۔ہیپاٹائٹس اےکی علامات میں بھوک کم لگنا،منہ کا ذائقہ تبدیل ہونا،چڑچڑاپَن،تھکاوٹ،کم زوری، آنکھوں اور جسم کی رنگت پیلی پڑجانا،گھبراہٹ محسوس ہونا اورکھانے پینے سے عدم رغبت شامل ہیں۔ 

اگر ہیپاٹائٹس اے بچپن میں لاحق ہوجائے،تو عموماً کسی پیچیدگی کا باعث نہیں بنتا، لیکن نوجوانی یا بڑھاپے میں ہو تو بعض کیسز میں جگرایک فی صد تک متاثر ہوجاتا ہے اور بسا اوقات یہ ایک فی صد بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔ہیپاٹائٹس اے کی تشخیص کےلیے آئی جی ایم اینٹی باڈیز (Immuno Globulin M Antibodies)اور آئی جی جی اینٹی باڈیز(Immuno Globulin G Antibodies)بہترین ٹیسٹس ہیں۔چوں کہ ہیپاٹائٹس اے از خود ٹھیک ہوجاتا ہے، اس لیے اس کاعلاج ادویہ نہیں، ہلکی پھلکی غذا کا استعمال اورمکمل آرام ہے کہ جگر کو جب ریسٹ ملتا ہے، تو وہ خود بخود تن درست ہوجاتا ہے۔

البتہ مرض کے ابتدائی ایّام میں بہت زیادہ اُلٹیاں ہوسکتی ہیںاور بھوک بالکل ختم ہوجاتی ہے، تو عموماً ایسی صُورت میں معالجین ڈرپ لگادیتے ہیں کہ ہمارے یہاں عام طور پرڈرپ ہی کو اس کا علاج تصوّرکرلیا گیا ہے۔حالاں کہ ایک ڈرپ میں صرف ایک لیٹر پانی، 9گرام نمک اور پچاس گرام گلوکوز ہی شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر مریض منہ سے خوراک، پانی وغیرہ باآسانی لے رہا ہو،تو ڈرپ کا استعمال غیر ضروری ہے۔

ہیپاٹائٹس بی کا وائرس منہ کے ذریعےجسم میں داخل نہیں ہوتا، بلکہ جسم کے اُس حصّے سے جہاں کوئی معمولی سا زخم یا خراش ہو، داخل ہوکر جگر تک رسائی حاصل کرلیتاہے۔ یہ وائرس مریض کی جسمانی رطوبت، تھوک اور خون میں پایاجاتا ہے، لہٰذا ان ہی ذرائع سےکسی تن درست فرد میں داخل ہوکر اُسے اپنا شکار بناسکتا ہے۔علاوہ ازیں،اگرآلاتِ جرّاحی اسٹرلائز نہ ہوں، ایک سے زائد بار سرنج کااستعمال کیا جائے، انتقالِ خون سے، جِلد پر ٹیٹوز وغیرہ بنوانے کے دوران ایسی سوئی کے استعمال سے، جو اسٹرلائز نہ ہو اور غیر محفوظ جنسی تعلقات سے بھی یہ وائرس جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔چوں کہ اب خون کی منتقلی بغیر ٹیسٹ کے ممکن نہیں، لہٰذا اس کے ذریعے مرض پھیلنے کے امکانات خاصی حد تک کم ہوگئے ہیں، ورنہ ایک دَور میں تھیلیسیما کے تقریباً تمام مریض ہیپاٹائٹس بی کی لپیٹ میں آگئے تھے۔

ہیپاٹائٹس بی بچّوں کا قاتل بھی کہلاتا ہےکہ وہ حاملہ خواتین ،جن کا ہیپاٹائٹس بی کا ٹیسٹ مثبت ہو، زچگی کے وقت بچّوں میں بھی یہ مرض منتقل کر سکتی ہیں،جو پھر عموماً موت ہی کا سبب بنتا ہے۔ اِسی لیے پہلے مرحلے میں حاملہ کی ہیپاٹائٹس بی کی ویکسی نیشن کی جاتی ہے اور پیدایش کے ایک ہفتے کے اندر نومولود کو بھی ایچ بی آئی جی(Hepatitis B Immune Globulin) کاایک ٹیکا لگادیا جاتا ہے،تاکہ مرض سے تحفّظ حاصل ہو۔ بعد ازاں، دو ماہ کے اندر حفاظتی ٹیکوں کاکورس مکمل کروایا جاتا ہے۔اس طرح بچّہ اس وائرس سے محفوظ رہتا ہے۔ 

ہیپاٹائٹس بی کا وائرس جب بڑوں کے جسم میں داخل ہوتا ہے، تو جسم قدرتی طور پر اس وائرس سے دفاع کے لیے اینٹی باڈیز بنانے کی کوشش کرتا ہے، مگر80فی صد کیسز میں اُسے ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاہم،20 فی صد کیسز میں جسم اینٹی باڈیز بنانے میں کام یاب ہوجاتا ہےاور پھر چھے ماہ کے اندر ہی جسم کا دفاعی نظام اس وائرس کو ختم بھی کردیتا ہے۔ بعض اوقات یہ وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد بھی فعال نہیں ہوتا۔ اس صُورت میں چوں کہ جگر کسی قسم کے نقصان سے دوچار نہیں ہوتا، لہٰذا علاج کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔البتہ ایسے مریض ،جو طبّی اصطلاح میں کیرئیرز کہلاتے ہیں،کسی دوسرے صحت مند فرد میں وائرس منتقل کرکے اُسے مضر اثرات سے دوچار ضرور کرسکتے ہیں۔ 

ہیپاٹائٹس بی کے زیادہ تر کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ مرض کی تشخیص HBsAg یاHBeAgٹیسٹس کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اگررینج 2000کاپیز سے کم ہو، تو علاج کی ضرورت نہیں پڑتی۔جن مریضوں میں یہ وائرس فعال ہوجائے،اُن میں پانچ سے بیس سال کےعرصے میں جگر میں اس قدر ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی ہے کہ جگرCirrhosis (سروسز) کا شکار ہوجاتا ہے،جوجگرکےسرطان کا موجب بن سکتا ہے۔ عام طور پر ہیپاٹائٹس بی کا وائرس صرف ایک فی صد مریضوں میں اُس وقت پیچیدہ صُورت اختیار کرلیتاہے، جب ہیپاٹائٹس بی کے ساتھ ڈی بھی لاحق ہوجائے، وگر نہ مریض ہیپاٹائٹس بی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہتے ہیں،جنہیں دائمی ہیپاٹائٹس بی کا مریض کہا جاتا ہے۔کرونک ہیپاٹائٹس بی میں جگر میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے،جس کے نتیجے میں10سے30 سال کے دوران جگر کی کارکردگی بہت زیادہ متاثر ہوجاتی ہے۔ 

اس عرصے میں پہلے جگر پھولتا ہے، پھر کچھ عرصے بعد سُکڑجاتا ہے۔ بعد ازاں، جگر میں خون کے دبائو، تلّی کا حجم بڑھنے اور پیٹ میں پانی بَھرجانےجیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔نیز، بعض اوقات غذاکی نالی میں خون کا دباؤ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ کوئی نہ کوئی خون کی نالی پھٹ جاتی ہے، جس کے نتیجے میںخون کی قے ہوسکتی ہے یا پھرکالے ڈامر کی طرح کے پاخانے آنے لگتے ہیں۔ نیز، جگر کا کینسر بھی ہوسکتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین سمیت مرض کی تمام اسٹیجیزکا علاج بھی موجود ہے۔ تاہم علاج سے مستفید ہونے کے لیے بروقت تشخیص اور درست علاج ضروری ہے،مگر ہمارے یہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر مریض مستند معالج سے تب ہی رابطہ کرتے ہیں، جب مرض خاصا پیچیدہ ہوچُکا ہوتا ہے ۔

ہیپاٹائٹس سی وائرس کے سات گروپ ہیں۔اس وائرس کے پھیلاؤ کے عوامل بھی مریض کی جسمانی رطوبتیں ، تھوک اور خون ہیں،البتہ90فی صد کیسز کی وجہ متاثرہ خون کی منتقلی ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خون لینے اور دینے کے عمل میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کی دوسری بڑی وجہ ایک سے زائد بار سرنج کا استعمال ہے،جس کے50 فی صد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ مغرب میں اکثرایچ آئی وی کے مریض ہیپاٹائٹس سی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ہیپاٹائٹس سی کا وائرس جسم میں داخل ہونے کے 6سے7 ہفتے تک کوئی علامت ظاہر نہیں کرتا اور اگر یہ وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد ایکٹیو نہ ہو، تو تقریباً60سے70فی صد کیسزمیں خودبخود ختم بھی ہوجاتا ہے۔ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص کے ٹیسٹس بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر مریض اتائیوں یا نیم حکیموں سے علاج کرواتے ہیں، جو عموماً "Anti HCV" ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ٹیسٹ مرض تشخیص نہیں کرتا، بلکہ صرف یہ بتاتا ہے کہ آیا مریض کو کسی وقت ہیپاٹائٹس سی ہوا تھا اوراب موجود ہے یا ختم ہوچُکا ہے۔یاد رکھیے،پی سی آر(Polymerase Chain Reaction) ٹیسٹ کروائے بغیر ہیپاٹائٹس سی کا علاج ممکن ہی نہیں۔ اب پی سی آر کے بھی دو طرح کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ایک ٹیسٹ کے ذریعے مرض کے پازیٹو یا نیگیٹو ہونے کا پتا چلتا ہے اور دوسرا ٹیسٹ وائرس کی تعداد ظاہر کرتا ہے۔اگر پہلے ٹیسٹ کی رپورٹ پازیٹو ہو ،تو پھر دوسرے ٹیسٹ کے ذریعے وائرس کی تعداد معلوم کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ایل پی ٹی(Liquid Penetrant Testing) بھی کروایا جاتا ہے۔ ان دونوں ٹیسٹس کی رپورٹ کی بنیادپر علاج کا طریقۂ کار تجویز کیا جاتاہے۔ 

یہ ایک منہگا ٹیسٹ ہے، لیکن عموماً مریض کسی ماہر گیسٹروانٹرولوجسٹ سے بہت تاخیر سے رجوع کرتے ہیں اور تب تک جگر Cirrhosisکا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صُورت میں وائرس ختم کرنے کے ساتھ جگر میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا علاج بھی ناگزیر ہوجاتا ہے، یعنی معاملہ یک نہ شد دو شد کے مصداق ہوجاتا ہے۔ یاد رہے، علاج کے ذریعے وائرس کو تو 3 سے 6 ماہ میں ختم کردیا جاتا ہے، لیکن جگر کی ٹوٹ پھوٹ روکنے کے لیے مستقل علاج کی ضرورت رہتی ہے اور ایسے میں زیادہ تر مریض گھبرا کر جلد صحت یاب ہونے کے لیے مختلف ٹوٹکے آزمانے لگتے ہیں یا پھر اتائیوں، حکیموں سے رجوع کرلیتے ہیں، جو قطعاً درست عمل نہیں، کیوں کہ اس دوران جگر بتدریج سکڑ ہورہا ہوتا ہے، حتیٰ کہ جگر کا سرطان تک لاحق ہوسکتا ہے۔ گرچہ جگر کے سرطان کا علاج بھی میسّر ہے، بشرطیکہ بروقت معالج سے رجوع کرلیا جائے۔ اصل میں جب مرض ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے، تو وہی وقت علاج کے لیے موزوں ترین ہے۔ دست یاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت مُلک میں تقریباً 17 کروڑ افراد ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہیں، جب کہ ہیپاٹائٹس بی کے کیسز کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

ہیپاٹائٹس ڈی ایک طفیلی وائرس ہے ،جو صرف ہیپاٹائٹس بی ہی کے ساتھ مل کر نقصان کا سبب بنتا ہے۔ اس سے بچائو کے لیے ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ہی کافی ہے، کیوں کہ جب تک بی وائرس متاثر نہیں کرے گا، ہیپاٹائٹس ڈی ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں۔

ہیپاٹائٹس ای بھی منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر جگر تک رسائی حاصل کرتا ہے۔یہ وائرس کسی بھی عُمر کے فرد کو لاحق ہوسکتا ہے۔یہ قسم موذی نہیں، لیکن اگر کوئی حاملہ اس وائرس کا شکار ہوجائے، تو نہ صرف ماں، بلکہ شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے، جس کے 20سے 30فی صد امکانات پائے جاتے ہیں۔ وگر نہ یہ ایک لمبے عرصے تک جسم میں رہتا ہے اور اس سے مہینوں پر مشتمل شدید یرقان ہوسکتا ہے۔ مرض کی تشخیص خون اور پاخانے کے ٹیسٹس کے ذریعے کی جاتی ہے۔ البتہ یہ مرض قابلِ علاج ہے۔

گزشتہ سات ماہ سے دُنیا بَھر میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ کورونا وائرس نظامِ تنفس کو توشدید متاثر کر ہی رہا ہے، لیکن دِل ، جگر اور دیگر اعضاء بھی اس سے محفوظ نہیں رہتے۔ نیز، کورونا وائرس ایسے کئی مریضوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہورہا ہے، جو پہلے ہی سےکسی مرض خصوصاً ذیابطیس، بُلند فشارِ خون، دَمے، دِل اور جگر کے عوارض میں مبتلا ہیں۔ یاد رہے، کورونا وائرس اپنے عروج پر پھیپھڑوں کے ساتھ دِل اور جگر کو بھی متاثر کررہا ہے کہ اینٹی وائرل میڈیسن اور آکسیجن کے استعمال سے جگر کی نہ صرف کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ مرض کے خطرناک ہونے کی صورت میں Multiple Organ Failure جیسی خطرناک سیچویشن بھی پیش آسکتی ہے۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال ،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین