• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سہیل وڑائچ

ماجد نظامی

فیض سیفی، وجیہہ اسلم

عبداللہ لیاقت، حافظ شیراز قریشی

اٹھارویں ترمیم کیا ہے ؟

آئین پاکستان میں ہونے والی اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے قومی اسمبلی سے منظور کرائی۔اس ترمیم کے مطابق صدر کے پاس موجود تمام ا ایگزیکٹیو اختیارات پارلیمان کو دے دیے گئے۔پارلیمان کو دئیے جانے والے اختیارات میں لیڈر آ ف اپوزیشن کیساتھ ساتھ وزیر اعظم کو اور بھی زیادہ اختیارات کا مالک بنادیاگیا۔ اس کے علاوہ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔

ضیاء اور مشرف دو ر میں ہونے والے طول اقتدار کیلئے کی جانے والی زیادہ تر ترامیم کو ختم کردیاگیا اور سیاسی جماعتوں اور منتخب حکومتوں کو زیادہ بااختیار بنانے کی کوشش کی گئی۔اس ترمیم کے تحت 1973 کے آئین میں تقریبا 100 کے قریب تبدیلیاں کی گئی ہیں جو آئین کے 83 آرٹیکلز پر اثر انداز ہوئیں۔

18ترمیم اور آئین میں ہونے والی چند اہم تبدیلیاں :

18ویں ترمیم کے تحت 1973کے آئین میں تقریباً 100کے قریب تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کی گئیں ترامیم کو تقریباً ختم کر دیا گیا، اُنہوں نے 8ویں ترمیم کے تحت 1973کے آئین میں 90سے زیادہ آرٹیکلز کو تبدیل کیا تھا۔ ملک میں ایک جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کی گئی 17ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو بھی 18ویں ترمیم کے ذریعے قریباً ختم کر دیا گیا ۔

تحریک انصاف کی حکومت نے 18ویں ترمیم کو ختم کرنے یا اس کے کچھ نکات کو تبدیل کرنے کا شوشہ تو چھوڑ دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی محض تین ووٹوں کی اکثریت سے برسر اقتدار ہے ۔آئین کے جن آرٹیکلز میں تبدیلیاں کی گئیں وہ یہ ہیں۔

صوبوں کو منتقل ہونے والے محکمے:

آٹھارویں ترمیم کے مطابق وفاق سے صوبوں کو قریباً27محکمے منتقل ہوئے تھے مگر آغاز میں 17 وزارتیں وفاق سے صوبوں کو منتقل ہو ئیں۔ وفاق سے صوبوں کو محکموں کی منتقلی کنکرنٹ لسٹ( مشترکہ قانون سازی فہرست) کو آئین سے حذف کر کے کی گئی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد مشترکہ قانون سازی کی لسٹ کا خاتمہ کردیا گیا اور صوبوں کو 30 جون 2011ء تک اس ضمن میں تمام معاملات کو حتمی شکل دینے کی ہدایات بھی آئین میں درج ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 270 اے اے کی شق 8 یہ بھی کہتی ہے کہ مشترکہ قانون کی فہرست حذف کرنے پر مذکورہ فہرست میں مندرجات صوبوں کو تفویض کئے گئے اختیارات کے معاملات کو تیس جون 2011ء تک مکمل کرلیاجائے گا ۔وفاق اس ضمن میں ایک کمیشن تعمیل کمیشن بھی قائم کرے گی جو عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔

صورتحال کچھ یوں ہے کہ تفویض محکموں میں سے کچھ محکمے ابھی بھی وفاق کے پاس ہیں جبکہ کچھ محکموں میں وفاق براہ راست اثرانداز ہوتا ہے۔ان محکموں میں پانی و بجلی ،تیل گیس او رقدرتی وسائل،انرجی،پورٹس و شپنگ،بین الصوبائی امور،شماریات،ریلویز اور سمندری امور جیسے مشتر کہ مفادات کونسل کے محکموں سمیت صوبائی محکمے بھی اپنے پاس رکھے ہوئے ہے جو کہ وفاقی فنڈز پر ایک بوجھ ثابت ہو رہے ہیں۔

آئینی طور پر وفاق کے پاس محکموں میں دفا ع،کرنسی ،امور خارجہ او ر مواصلات شامل ہیں۔ صوبوں کو خود مختاری دینے کےلئے وفاق نے جن محکموں کو صوبوں کے حوالے کیا ان میں تعلیم، صحت، زراعت، آبپاشی، ماحولیات، ثقافت، توانائی، سیاحت، ایریگیشن، کھیل، لوکل گورنمنٹ، انسانی حقوق ،خوراک، ایکسائیز، ریونیو،اقلیت زکوۃ،ٹرانسپورٹ،انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات اور غیر قانونی تارکین وطن شامل ہیں۔


تازہ ترین