• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی لاکھ انسانوں کو موت کے اندھیروں میں لے جانے والی وبا کووڈ 19نے دنیا کو بدل ڈالا ہے۔ اب ہم ’نئے معمول‘ New Normal کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ اگر کچھ نہیں بدلا تو پاکستان کی اشرافیہ اور بالخصوص سیاستدان۔ وہی ہے چال بےڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ وہی پرانے الزامات اور وہی آل پارٹیز کانفرنسیں۔ میں تو گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی دیکھتا آیا ہوں۔ ان پر ستمبر 1965کی جنگ کا کوئی اثر ہوتا ہے نہ ویت نام میں امریکی شکست کا۔ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی ہزیمتوں کا۔ نہ ہی دیوار برلن گرنے کا اور سب سے بڑھ کر 1971میں اپنے ملک کے دو لخت ہونے کا۔ ان کی تقریریں، منشور، پالیسیاں اٹھاکر دیکھ لیں۔ مجال ہے کہ انہوں نے تاریخ کے عظیم المیوں سے کوئی سبق سیکھا ہو۔

کورونا قتالۂ عالم نے دنیا بھر میں غریبوں کو اپنی طاقت کا احساس دلا دیا ہے۔ پاکستان میں بھی اکثریت کے خواہ وہ وسطی پنجاب میں ہو، جنوبی پنجاب میں، دیہی سندھ میں ہو یا شہری میں۔ بلوچستان میں، کے پی میں، آزاد جموں و کشمیر یا گلگت بلتستان میں، احساسات یہی تھے کہ حکمران طبقے بےنقاب ہورہے ہیں۔ ان میں انتظامی صلاحیتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ مشکل سے سانس لیتے مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ نے دیکھا کہ ڈاکٹرز اور نرسیں تو اپنی استطاعت سے بڑھ کر خدمت کررہے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کی جانیں بچارہے ہیں۔ کسی ذاتی، مسلکی، لسانی، نسلی وابستگی کا خیال کیے بغیر لیکن ہماری اشرافیہ اور ہمارے قائدین اپنی پرانی جبلتوں اور عادتوں میں ہی مبتلا رہے ہیں۔ جب انہیں احساس ہوا کہ اب چاروں صوبوں اور دو اکائیوں کی خلقِ خدا یک زبان ہوکر احتجاج کررہی ہے تو انہوں نے اپنی اپنی اسمبلیوں میں وفاق اور صوبوں میں طبی سامان کی تقسیم، امدادی رقوم کی ترسیل کے تنازعات کو ہوا دینا شروع کردیا۔ اس مشترکہ دشمن عالمی وبا کا مقابلہ متحدہ ہوکر کرنے کے بجائے قوم کو شعوری طور پر تقسیم کرنے لگے۔ پاکستان میں پہلا مریض 26فروری کو سامنے آیا۔ فروری مارچ میں پاکستان کا منظر نامہ دیکھ لیں اور آج وسط جولائی کا پاکستان۔ آپ کو واضح طور پر نظر آجائے گا کہ ملک اب کس طرح عمودی، افقی طور پر بٹا ہوا ہے۔ اس وقت کتنا متحد تھا۔ محاذ آرائی اور کشیدگی پھیلانے میں حکمراں اتحاد کی پارٹیاں اور اپوزیشن جماعتیں شامل ہیں اور پوری طرح حرکت میں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ سب اپنے آپ کو حق پر سمجھتی ہیں۔ انہیں کبھی یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک بڑی سوچی سمجھی سازش کا شکار ہیں۔ میڈیا بھی عین آزادیٔ صحافت سمجھ کر اس کشیدگی کو ہوا دیتا ہے کہ اسکی ریٹنگ بڑھتی ہے۔

بہت سی جنگوں، وبائوں، افراتفری کے بعد دنیا بھر میں جمہوریت یعنی عوام کے حق رائے دہی کو ہی انسانی بہبود اور ملک چلانے کے لیے بہترین نظام سمجھا گیا۔ جمہوریت صرف پارلیمانی نظام میں نہیں۔ صدارتی نظام میں بھی ہے اور دوسری شکلوںمیں بھی۔ بنیادی فلسفہ ایک فرد، ایک ووٹ ہے۔ ہر انسان کی رائے کو محترم خیال کیا گیا۔ جمہوریت کی مضبوطی اور تسلسل کے لیے سب سے طاقت ور بنیاد اور وسیلہ سیاسی پارٹیاں ہیں۔ جن کی تنظیم ملک گیر ہو۔ اپنا جمہوری ڈھانچہ ہو اور اپنے منشور پر عملدرآمد کے لیے پوری قوم میں نمائندے اور شاخیں موجود ہوں۔ حکومت میں یا اپوزیشن میں انہیں پالیسی سازی کے لیے ملک کے ہر حصّے میں اپنے ہی عہدیدار اور کارکن دستیاب ہیں۔ کسی علاقائی جماعت یا تنظیم کا سہارا لینا نہ پڑے۔

پاکستان کی تاریخ میں اکثر اس کے برعکس ہی ہوا ہے۔ ملک کی مادر جماعت پاکستان مسلم لیگ سے لے کر پاکستان تحریک انصاف تک 1947سے 2018تک علاقائی جماعتوں کی مدد کے بغیر پارلیمانی حکومت کا ڈھانچہ کھڑا نہیں ہو سکا ہے۔ یہ اشتراک صرف گنتی پوری کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کسی نظریے یا فلسفے پر عملدرآمد کے لیے نہیں۔ جس تنظیم کے خاتمے اور شکست کے لیے الیکشن لڑا جاتا ہے۔ کھلے نظریاتی تصادم کے باوجود اسے حکومت کا حصّہ بنانا پڑتا ہے۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ دونوں پارٹیاں ملکی اتحاد اور سالمیت اور جمہوری بالادستی کے لیے کتنی مخلص ہوتی ہیں۔

میں تو برسوں سے اس کرب کا اظہار کرتا آرہا ہوں کہ سیاسی جماعتیں اپنی تنظیم پر توجہ کیوں نہیں دیتیں۔ جمعیت علمائے اسلام 1970کے انتخابات سے میدان میں موجود ہے۔ 50سال میں یہ اپنی تنظیم کو اتنی مضبوط اور ملک گیر کیوں نہیں بناسکی کہ اسے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جاتی امرا، بلاول ہائوس نہ جانا پڑے۔ مولانا فضل الرحمٰن، نوابزادہ نصراللہ کی جگہ پُر کرنے کے بجائے اپنے عظیم والد مفتی محمود کی جگہ پُر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اسی طرح چوہدری برادران ملک کے لیے مخلص ہیں۔ اسلامی روایات کے لیے بھی بڑے دردمند ہیں۔ وہ اپنی جماعت کو پورے ملک میں منظّم کیوں نہ کرسکے کہ وہ کبھی زرداری ہائوس سے ڈپٹی وزیر اعظم بنتے ہیں کبھی عمران خان کے ہاتھوں اسپیکر پنجاب اسمبلی۔

یہ موضوع انتہائی حساس ہے اور بنیادی بھی۔ اسی میں ہمارے المیوں کے اسباب بھی پوشیدہ ہیں۔ اس پر مزید تفصیل سے لکھا جائے گا۔ ہم سقوطِ ڈھاکہ کے بہت سے عسکری اور سیاسی اسباب ڈھونڈتے ہیں۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ عوامی لیگ صرف مشرقی پاکستان تک کیوں رہی۔ مغربی پاکستان میں کیوں منظّم نہ کی گئی۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں اپنی شاخیں کیوں قائم نہ کیں۔ اس المیے کے 49سال بعد بھی پاکستان تحریک انصاف۔ پاکستان پیپلز پارٹی۔ پاکستان مسلم لیگ۔ قائداعظم مسلم لیگ، جمعیت علمائے اسلام، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، عوامی لیگ، یہ سب پارٹیاں بہت فعال ہیں۔ میڈیا پر نظر آتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ملک گیر تنظیم ہے جن کی پہلے کچھ شاخیں تھیں بھی۔ وہ سکڑتی جارہی ہیں۔ ملک بھر میں شاخیں یا جڑیں نہ ہونے کے باعث یہ پارٹیاں حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں کیا کبھی قومی فیصلے کرسکتی ہیں۔ کیا ایک سیاسی خلا موجود نہیں ہے۔ اس خلا کے ہوتے ہوئے کیا جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے۔ اس خلا کو غیرسیاسی قوتیں کیوں نہ پُر کریں۔

تازہ ترین