مطاہرہ عالم
کہنے کو توانسا ن نے بہت تر قی کر لی ہے، اپنی ز ند گی کو سہل بنا نے کے لیے جد ت پسند ی میں اتنا زیادہ آ گے نکل گیا ہے کہ واپسی اب ناممکن سی لگتی ہے۔ اگر ہم صرف 20 سال پرانی با تو ں کو یاد کر یں جب لوگ خط و کتا بت کیا کرتے تھے ۔ پرُسے اور عیادت کے لے ایک دوسرے کے گھر وں میں آنا جا نا ہوا کرتا تھا۔ ر شتوں میں محبت اوراحسا س با قی تھے۔لیکن اب و قت نے ہمیں محد ود کر دیا ہے۔ کم وقت میں بہت زیادہ کام انجام دینا چاہتے ہیں، مگر رشتوں اور احبا ب کے قر یب ہونے کے باوجود بہت دور ہوگئے ہیں۔ مو بائل فون کی ٹیکنالوجی نے ہمیں بہت سی آسانیاں فراہم کر رکھی ہیں ۔ ہم چند لمحوں میں اپنوں کے سا تھ منسلک ہو جاتے ہیں ۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ایسا لگتا ہے کہ ا پنو ں سے دوری کی بھی سب سے بڑی وجہ یہی موبا ئل ہے۔ حا ل ہی میں دوپہر کے کھانے میں با ہر جانا ہوا قریب ٹیبل میں 9افراد پر مشتمل ایک فیملی براجمان تھی لیکن یہ دیکھ کر بہت حیر ت ہو ئی کہ فیملی کے افراد آپس میں گفتگو نہیں کر رہے بلکہ اپنے اپنے موبائل فون میں مصروف ہیں۔ انھیں دیکھنے کے بعد ذہن میں سوالات کی بارش ہوئی کہ آیا ان موبائل فون نے رشتوں کو قر یب کیا ہے یا دورکر دیا ہے؟؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اعتدال کے روئیے کیوں نہیں اپناتے؟؟ جہاں جس چیزکی جتنی ضرورت ہے صرف اسی حد تک کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ غیر ضروری چیزوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت کیوں دینے لگے۔
معا شرے کے نوجوان طبقے کے سے ہمارا سوال ہے کہ جن کی صبح موبائل فون کے بغیر نہیں ہو تی ، جن کی نظر میں ہر حقیقی رشتے سے زیادہ قریب تر یہ موبائل ہیں۔ صبح ناشتے کا دستر خوان ہو یا جگری دوستوں کی بیٹھک ، سفر ہو یا مارکیٹ ہر بندہ موبائل میںچھپے ہوئے ــ’’خزانہ‘‘کی تلاش میں نظر آتا ہے ،گو کہ اردگرد جو لوگ موجود ہیں ان سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ۔سمجھ میں ایک بات نہیں آتی کے جب ہم اپنوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ہوسکتا ہے کے دوستوں سے بات چیت میں مصر وف ہوں لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کے تمام دوستوں کی بیٹھک میں بھی ایسے دوست پائے جاتے ہیں جو دوستو ں کو چھوڑ کر موبائل میں گم نظر آتے ہیں ۔نو جوان نسل ساری رات اپنی نیندیں خراب کرنے میں مصروف رہتی ہے اورعملی مصروفیات سے کوسوں دور ۔
عالم یہ ہے کہ اب توطالب علم کمرہ جماعت میں بھی موبائل کا بے دریغ استعمال کرتے نظرآتے ہیں ۔بازپرس کرنے پر جو اب حالات کے اچانک خراب ہو نے کی شکا یت پر ختم ہوجا تا ہے،ہمارے ایک عزیزکراچی کے ایک دینی مدرسہ میں پڑھاتے ہیں، میں بھی شعبہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوں،ان سے اکثر مختلف موضوعات پر سیرحاصل گفتگو ہوتی ہے ۔ان کے مطابق اکثرطلبہ سبق کے دوران موبائل استعمال کرتے ہیں،جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موبائل کس قدر نفسیاتی طور پر ہم پرحاوی ہوچکا ہے،آج ہر شخص موبائل کے کثرت استعمال جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوچکا ہے چھوٹا ،بڑا، امیر، غریب ، شہری، دیہا تی سب کو ہی اپنا علاج کرانا ہوگا ۔
ہم یہ نہیں کہتےکہ رابطے میں رہنا غلط ہے یا موبائل فون کا استعمال ترک کردیں ۔ہم توبس یہ چاہتے ہیں کہ موبائل اور رشتے کے اس مقابلے میں موبائل کی جیت نہ ہو رشتے اور احساس کو اپنی زندگی میں دوبارہ جگہ دینے کی کوشش کریں ،تاکہ آنے والی نسل صرف محبت کا پرچار کرے ،سچی اور حقیقی محبت جو صرف رشتے نبھانے سے حاصل ہوتی ہے، کچھ دن پہلے ایک نجی یونیورسٹی میںایک سیمینار میں جانے کا اتفاق ہوا،جہاں ملک کے نامور لوگ طالبات کو سنہری مستقبل کے اصول سکھارہے تھے ۔
اسی اثناء میں میری نگاہ ایک طالبہ پر پڑی جسے میںٹک ٹکی باندھ کر دیکھنے لگی،وقفے وقفے سے’’پیغام‘‘کا’’جواب‘‘دیا جارہا تھا جس طرح اس طالبہ کی توجہ موبائل کی طرف تھی بالکل اسی طرح میری توجہ اس کی طرف، پروگرام کے ختتام پر میں اس طالبہ کے پاس گئی اور ادھر ادھر کی کچھ باتوں کے بعد محترمہ سے تقریب کے دوران ان کی ’’مصروفیت‘‘سے انھیںآگاہ کیا،جس پر انھوں نے کزن سے ’’ضرور ی بات‘‘کا ذکر کیا اور چلتی بنی، اس کی آنکھوں میں موجود چوری دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ یہ اپنا مستقبل خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے،لیکن افسوس! اس کا ادراک اسے اس وقت ہوگا جب پانی سرسے گزرچکا ہوگا۔
ستم بالائے ستم والدین نے اپنے آپ کو صرف پیسہ کمانے والی مشین بنارکھا ہے اور اپنے آپ کو ان کی خبرگیری سے عاری کیا ہوا ہے ،ان ساری خرافات کی وجوہات معلوم کرنا چاہاتو مولانا اشرف علی تھانوی ؒکی بات مجھے بہت پسند آئی، ان کا کہنا تھا کہ لوگ پاکی وناپاکی کے مسائل بہت پوچھتے ہیں لیکن حلال وحرام کے مسائل شازونادرہی کوئی پوچھتا ہے، حالانکہ اسلام میں پاکی وناپاکی کی کچھ گنجائش ہے لیکن حرام کی کوئی گنجائش نہیں۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اپنے ذریعہ معاش پر بھی توجہ دیں تاکہ اس کے اثرات ان کے بچوں میں نظر آئیں۔