روشنیوں کے شہر کراچی میں کہیں بھی قانون کی عمل داری نظر نہیں آتی ۔ شہری اسٹریٹ کرمنلز اور ڈاکوؤں کے رحم وکرم پر ہیں ۔ ڈکیتوںکے گروہ انتہائی منظم اور شاید ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ کچھ عرصے قبل’’ ڈاکوؤں کاواٹس ایپ گروپ ‘‘ منظر عام پر آیا تھا، جس کا کا قلع قمع کیا گیا تھا ۔ ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کریمنلز نے اپنے قوانین وضع کیے ہوئے جن میں سے ایک قانون ، ڈکیتی مزاحمت پر قتل ہے جس پر تمام ڈکیت گروپ متفق ہیں، ۔ ذرا سی مزاحمت پر جان لینا ابروزمرہ کا معمول بن گیاہے،جس کی وجہ سے ہر شہری خوف و ہراس کا شکار ہے۔دوسری جانب نہ صرف معصوم شہری بلکہ اکثر اوقات پولیس اہل کار بھی ان کے خود ساختہ قانون کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں یا زخمی ہو کراسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جب کہ قاتلوں کا بال بیکا بھی نہیں ہوتا۔
یومیہ درجنوں وارداتوں کے دور ان ڈاکو بلا خوف و خطر، دن دہاڑے لوٹ مار کر کے باآسانی فرار ہوجاتے ہیں جب کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ اگرشہری اپنے طور پرکسی ڈاکو کو پکڑ کر اسے اپنے طور پر سزا دیتے ہیں تو پولیس فوراً پہنچ کر اسے ان کے چنگل سے چھڑا لیتی ہے۔ خانہ پری کے لیے پولیس کی جانب سے کچھ ڈکیت یا اسٹریٹ کریمنلز گرفتار بھی کیے جاتے ہیں لیکن انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے کمزور سا مقدمہ بنا کر جیل بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ چند روز میں ہی رہائی پا لیتے ہیں۔
چند دن قبل سکھن تھانے کی حدود ملیر ریڑھی گوٹھ موسانی پاڑہ میں واقع گھر میںقتل اور ڈکیتی کی واردات ہوئی۔ نصف درجن ڈاکو دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوئے۔ اسلحہ اور 80 ہزار روپے نقداور دیگر سامان لوٹ کر فرار ہوگئے جب کہ مزاحمت پر مالک مکان 35 سالہ ایو ب ولد غلام حسین کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔
مقتول مچھلی اورجھینگے کا بیوپاری تھا۔ آخری اطلاعات ملنے تک پولیس ڈکیتی اور قتل کا مقدمہ درج نہیں کرسکی تھی اور نہ ہی ملزمان کا سراغ لگا سکی ہے ۔گلشن اقبال، منگھو پیر اور نیو کراچی میں بھی 3 افراد ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشان بنےجب کہ عزیز بھٹی تھانے کی حدودگلشن اقبال بلاک 13 اے المصطفی اسپتال کے قریب ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر پرفائرنگ کرکے61 سالہ مرغوب الزمان ولد معین کو زخمی کردیاگیا۔پیر آباد تھانے کی حدود منگھوپیر خیبر گیٹ کے قریب سلمان ولد نصیب زادہ کو زخمی کردیا گیا۔
سیکٹرالیون جی عثمان پبلک اسکول کے قریب دوران ڈکیتی مزاحمت پر علی رضا ولد محمد یاسین ،نارتھ ناظم آباد بلاک جے میں 29 سالہ سید ازبان ولد سید شمیم کو زخمی کردیا اورنقدی و موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے ۔سچل تھانے کی حدود سپر ہائی وے ملک آغا ہوٹل کے قریب ڈاکوؤں نے پنکچر شاپ پررکنے والی سرکاری کارنمبرجی پی اے 918پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں مختار مری جاں بحق ہو گیا،جب کہ اس کے عزیز نثار مری زخمی سمیت چار افراد ہوگئے ۔ نثار مری محکمہ بورڈ آف ریونیو میں اسسٹنٹ کمشنر ہیں ۔
سائٹ سپر ہائی وے صنعتی ایریا تھانے کی حدود احسن آباد میں مسلح ملزمان نے لوٹ مارکے دوران مزاحمت کر نے پر فائرنگ کر کے کاشف کو زخمی کر دیا ،پولیس نے فائرنگ میں ملوث ملزم زبیر کو حراست میں لے لیاجب کہ اس کاساتھی فرار ہوگیا۔لانڈھی نمبر 4 الیاس گوٹھ نیول دیوار کے قریب ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ سے 2 افراد 35سالہ محمد ظہیر اور30 سالہ عامرزخمی ہوگئے۔نیو ایم اے جناح روڈ اسلامیہ کالج کے قریب کاروں کے شو روم پر مسلح افراد دھاوا بول کر2کروڑ 38لاکھ روپے نقد لوٹ کر فرار ہوگئے۔
اورنگی ٹائون میں سرکاری ادارے کی کیپ پہنے ملزمان کومبنگ آپریشن کے نام پر گھر کا صفایا کر کے فرار ہوگئے ۔ عوامی کالونی تھانے کی حدودکورنگی نمبر 5میں 22سالہ رحیم بخش کو زخمی کردیا ۔ شفیق مو ڑ نمک بینک کے قریب 2موٹر سائیکلوں پر سوار4 مسلح ڈاکو پاکستانی نڑاد امریکی شہری تیمور رئیس سے اسلحے کے زور پر 50ہزار روپے نقد، قیمتی موبائل فون اور لائسنس یافتہ پستول چھین کر فرار ہو گئے ۔کورنگی کے علاقے عوامی کالونی میںچند روز قبل موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں کی فائرنگ سے شدیدزخمی ہونے والاپولیس ہیڈ کانسٹیبل اصغر دوران علا ج اسپتال میںدم توڑ گیا۔
دوسری جانب حکومت سندھ نےتھانوں کی صورت حال بہتر بنانے اور پولیس اہل کاروں و افسران کی معاشی زبوں حالی کا خاتمہ کرنے کے لیے بعض اقدامات کیے ہیں جن کی وجہ سے امید ہے کہ پولیس خلوص نیت کے ساتھ اپنے فرائض پر توجہ مرکوز کرے گی اور اس محکمے سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ پولیس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھانوں کی سطح پر بجٹ کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ بجٹ کراچی پولیس کے ایس ایچ اوز، ایس او ٹریفک اور سب ڈویژن پولیس آفیسرز کے حوالے کیا جارہا ہے۔بجٹ نہ ہونے کے باعث بیشتر افسران ایس ایچ او/ایس او/سب ڈویژنل آفیسر بننے سے گریزاں نظر آتے تھے۔کراچی پولیس چیف کے مطابق مذکورہ بجٹ متعلقہ تھانوں کے بینک اکاؤنٹس میں جائےگا، جہاں سے ایس ایچ اوز کے دستخطوں سے رقوم نکالی جا سکیں گی جس کا باقاعدہ طور پر آ ڈٹ بھی کیا جائے گا۔ انھوں نے کہاکہ کراچی پولیس کیلئے پہلی بار تھانوں کی سطح پر بجٹ کی فراہمی سے نہ صرف کرپشن پر بہتر انداز میں قابو پایا جا سکے گا بلکہ محکمے میں احتساب کا عمل مضبوط ہو گا۔
راقم نے متعدد تھانوں کے دورے کے دوران افسران کی کرسیاں تک آہنی صندوقوں کے ہینڈلز کےساتھ لوہے کی زنجیروں سےبندھی د یکھی ہیں۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ جب کوئی سائل اپنی شکایت درج کرانے آتا توافسربجٹ کے فقدان کا کہہ کر سائل سے بال پوائنٹ،سفیدکاغذاور کاربن پیپر لانے کے لیے کہتا تھا۔مشاہدے میں آیا ہے کہ پولیس کی تنخواہ میں اضافے کے باوجود ان کے رویوں اور رقم بٹورنے کے انداز میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاتھانوں کو بجٹ کی فراہمی کے بعدپولیس کی کرپشن میں کمی اور جرائم کی مکمل بیخ کنی ممکن ہوسکے گی؟