تھا اس کا جرم بس اتنا
کہ اس نے حکمرانِ وقت کو آئینہ دکھلایا
یہ دکھلایا کہ کیسے اس کے چہرے پر
نااہلیت، بدعنوانی، بداعمالی کے دھبے ہیں
طریقِ حکمرانی اس کا ناقص ہے
یہ دکھلا کر گزارش کی:
’’حضور! اپنا یہ چہرہ، رُخِ مبارک صاف کر لیجئے
کہ نااہلی، بدعنوانی، بداعمالی کے دھبے
بدنما معلوم ہوتے ہیں
حضور! اپنا طریق حکمرانی بدلیے
انتقامی خو کو اپنی چھوڑیے
دیانت اور بلوغت لائیے اپنی سیاست میں
حضور! اس ملک پر، اس کے غریبوں پر
ذرا سا رحم تو کھائیے‘‘
٭
مزاجِ شاہ نازک تھا
مزاجِ شاہاں نازک ہی ہوا کرتے ہیں
پر اس حکمران، اس لاڈلے شہ کا
یہ کچھ زیادہ ہی نازک تھا
یہ سُن کر طیش میں آیا
وفورِ غیظ سےاپنے غلاموں سے یہ فرمایا:
’’اسے جرأت ہوئی کیونکر، ہمیں آئینہ دکھلائے؟
کوئی جرم اس کا ڈھونڈو تم
کرپشن، ٹیکس چوری اس کی کوئی ڈھونڈ کر لائو
کرو کچھ ایسا اس کو قید میں ڈالوں
مزہ اس کو چکھائوں مجھ کو آئینہ دکھانے کا
کروں ساتھ اس کے ایسا، دوسروں کو جس سے عبرت ہو
نہ اس جیسی جسارت کی کسی کو اور ہمت ہو‘‘
٭
غلاموں نے بہت سر جوڑے، سر مارا
بہت ڈھونڈا، نہ کوئی جرم مل پایا
نہ مل پایا کوئی ذرہ کرپشن کا، نہ کوئی ٹیکس چوری کا
مگر اس لاڈلے کی انتقامی حِس کی تسکین بھی ضروری تھی
سو ڈھونڈا کیس اک ایسا کہ جو عشروں پرانا تھا
اگرچہ کیس جھوٹا تھا
مگر اس کے بہانے اس کو زندان کے حوالے کرنا ممکن تھا
سو کر ڈالا
اُسے یوں دُوسروں کے واسطے عبرت بنا ڈالا
٭
فقط اتنا سا قصہ ہے، فقط اتنی کہانی ہے
نہیں تھا جرم کوئی اور
یہی تھا جرم بس اس کا
کہ اس نے حکمرانِ وقت کو آئینہ دکھلایا
(سینئر صحافی اور شاعر ازہر منیر مارچ 2020سے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کے لیے شملہ پہاڑی چوک میں بھوک ہڑتال پر ہیں)