• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہری شہریت والے کابینہ کا حصہ نہیں ہونے چاہئیں، علی محمد خان


کراچی (ٹی وی رپورٹ) وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہاہے کہ آئین میں تبدیلی تک دہری شہریت والے کابینہ کا حصہ نہیں ہونے چاہئیں، کوئی وزارت قانون سے استعفیٰ دیدے تو وزیرقانون کے دفتر میں بیٹھ کر فائلیں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سپریم کورٹ کے وکیل جہانگیر جدون ،ن لیگ کے رہنما میا ں جاوید لطیف اور پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل بھی شریک تھے۔سابق اٹارنی جنرل اشتر علی اوصاف نے کہا کہ نیب قانون اتنا کالا قانون ہے کہ اسے سیاہ ترین سیاہی سے بھی لکھیں تو وہ بھی مدہم ہوگی،پیراگون سوسائٹی کیس سمیت سپریم کورٹ کے کئی فیصلے نیب کے خلاف چارج شیٹ ہیں۔جہانگیر جدون نے کہا کہ معاون خصوصی کا تقرر آئین و قانون کے خلاف ہے، معاون خصوصی اور مشیر جن رولز آف بزنس کے تحت مقرر ہوتے ہیں یہ آئین سے متصادم ہیں۔میاں جاوید لطیف نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی نیب قانون میں تبدیلی نہیں ہوگی، نیب قانون جو لوگ استعمال کرتے ہیں وہ اسے تبدیل نہیں کرنے دیں گے، وزیرقانون کے عہدے سے مستعفی شخص اسی دفترمیں بیٹھ کر فائلیں نہیں دیکھ سکتا۔قادر پٹیل نے کہاکہ حکومت اور اپوزیشن چاہے تو نیب قانون بدل سکتی ہیں، منتخب لوگ بغیر حلف کے کچھ نہیں بن سکتے تو بیرون ملک پاکستانی بھی نہیں بن سکتے، غیرقانونی طریقے سے اربوں کے اثاثے بنانے والے معاون خصوصی لگے ہوئے ہیں، ، فروغ نسیم دن کو وزیر اور رات کو وکیل ہوتے ہیں۔وزیرمملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہاکہ نیب قانون میں اصلاحات بہت پہلے ہوجانی چاہئے تھیں، پچھلی حکومتیں نیب قانون میں اصلاحات کردیتیں تو عدالتوں کو زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی، پی ٹی آئی حکومت نیب قانون میں اصلاحات کی کوشش کررہی ہے، پارلیمان قانون میں سقم دور کردے تومعاملات عدالت میں نہ جائیں، نیب قانون میں اصلاحات کا مطلب ملکی خزانے کو لوٹنے والوں کو چھوٹ دینا نہیں ہے۔علی محمد خان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارا فخر اور اثاثہ ہیں، کابینہ حساس جگہ ہے دہری شہریت رکھنے والے شخص کو حساس حکومتی عہدے پر نہیں ہونا چاہئے، معاون خصوصی کی دہری شہریت پر آئین پاکستان خاموش ہے، آئین میں تبدیلی تک دہری شہریت والے کابینہ کا حصہ نہیں ہونے چاہئیں، قانون سازی کر کے طے کیا جائے کہ دہری شہریت والے کابینہ کا حصہ ہوں یا نہیں ہوں۔ علی محمد خان نے کہا کہ قادر پٹیل معاونین خصوصی پر غلط طریقے سے پیسے لگانے کا غلط الزام لگارہے ہیں، سینیٹ میں بلوچستان کی سیٹوں میں اضافہ کر کے ان کا حق دیا گیا ہے، مشکل فیصلے لیے گئے ہیں لیکن نیت حالات ٹھیک کرنے کی ہے، جن جماعتوں نے اس ملک کی یہ حالت کی لوگ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے، اگر کوئی وزارت قانون سے استعفیٰ دیدے تو وزیرقانون کے دفتر میں بیٹھ کر فائلیں نہیں دیکھ سکتا۔ن لیگ کے رہنما میا ں جاوید لطیف نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی نیب قانون میں تبدیلی نہیں ہوگی، نیب قانون جو لوگ استعمال کرتے ہیں وہ اسے تبدیل نہیں کرنے دیں گے، ماضی میں 58/2B بھی حکومت کیخلاف ہتھیار کے طورپر استعمال ہوتا تھا، اس قانون کو بنانے والے بھی اور نیب قانون بنانے والے بھی تگڑے ہیں، پی ٹی آئی حکومت اصلاحات کرنا چاہتی ہے لیکن نہیں کرے گی۔ جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو متعلقہ شعبے میں مہارت کی بناء پر معاون خصوصی رکھا جاسکتا ہے، معاون خصوصی کو بریفنگ دے کر کابینہ سے چلا جانا چاہئے ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کابینہ کی پالیسی سازی میں شامل ہو، عمران خان دہری شہریت والوں کے ذریعے حکومتی نظام اور پالیسیاں بنارہے ہیں۔ جاوید لطیف نے کہا کہ جنرل یحییٰ کی طرح عمران خان نے بھی اسمبلی پر لعنت بھیجی، جنرل یحییٰ نے احتساب کے نام پر ایوب خان کی کابینہ کے لوگوں پر کرپشن کے مقدمات بنائے، عمران خان نے بھی صحافیوں اور اپوزیشن کیخلاف وہی کچھ کیا، آج بھی جیو اور میر شکیل الرحمٰن سمیت کوئی ایسا صحافی نہیں جو آزادی سے بات کرے اور اس پر کوئی مقدمہ نہ بنائے، ن لیگ کی حکومت نے 2017ء میں میڈیا پر جو پابندی لگائی اسے ہم نے بھگتا۔ جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے دو سال میں کرپشن کی وہ داستان لکھی گئی جو پاکستان کی سترہ سالہ تاریخ میں نہیں لکھی گئی، زلفی بخاری جیسے لوگوں نے عمران خان پر سرمایہ کاری کمانے کیلئے کی تھی آج کمارہے ہیں، حکومت دو سال میں نیب کو استعمال نہیں کرتی تو اپوزیشن بھی بجھی بجھی نظر نہیں آتی، دہری شہریت والوں کو رکھنے والے آج پاکستان کے پالیسی ساز بنے ہوئے ہیں، وزیرقانون کے عہدے سے مستعفی شخص اسی دفترمیں بیٹھ کر فائلیں نہیں دیکھ سکتا۔پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے کہاکہ حکومت اور اپوزیشن چاہے تو نیب قانون بدل سکتی ہیں، پیپلز پارٹی نے 2012ء میں نیب قانون میں تبدیلی کی کوشش کی تو ن لیگ سے بات مکمل نہیں ہوسکی، نیب قانون میں اصلاحات کیلئے فاروق ایچ نائیک کا بل سب کیلئے قابل قبول ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کو حق ملنا چاہئے لیکن پالیسی یکساں ہونی چاہئے، اگر منتخب لوگ بغیر حلف کے کچھ نہیں بن سکتے تو بیرون ملک پاکستانی بھی نہیں بن سکتے، غیرقانونی طریقے سے اربوں کے اثاثے بنانے والے معاون خصوصی لگے ہوئے ہیں، ان لوگوں سے پیسے لے لیے جائیں تو پاکستان کا سارا قرضہ اتر جائے گا، کابینہ میں اہم فیصلے وہ داغدار لوگ کررہے ہیں جن کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے، علی محمد خان جیسے سیاسی لوگ اہم فیصلوں میں شریک نہیں ہوتے۔

تازہ ترین