• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل بینچ نے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جسے قانونی حلقے ایک شاہکار فیصلہ اور اہلِ سیاست عوام کے حقوق کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ یہ شاہکار فیصلہ فاضل جسٹس مقبول باقر نے 87صفحات پر تحریر کیا ہے جس میں ایک طرف نیب کے خلاف چارج شیٹ لگائی ہے اور دوسری طرف ان قوتوں کو بےنقاب کیا ہے جو پاکستان کی جمہوری ریاست میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں حائل رہی ہیں جس کے نتیجے میں احتساب کا ایک قابلِ اعتماد نظام قائم نہ ہو سکا اور سول ادارے مضبوط نہ ہو سکے۔ اقتدار کی اسی کشمکش میں سوسائٹی کے رگ و پے میں لاقانونیت، کرپشن، اقربا پروری اور بےایمانی سرایت کر گئی ہے اور بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دور حکومت نے قومی احتساب ایکٹ کو منسوخ کرکے نیب آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کے بارے میں عوامی سوچ یہ تھی اس کا ٹارگٹ سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ کے ذریعے ایک تابعدار سیاسی جماعت کھڑی کرنا تھا۔ بدقسمتی سے یہ بدنام زمانہ ادارہ سیاسی جماعتوںکے دور حکومت میں بھی قائم رہا۔ پھر جب مسلم لیگ نون کی حکومت زیرعتاب آئی تو 2019کے آغاز میں خواجہ سعد رفیق اور ان کے چھوٹے بھائی پیراگون کیس میں گرفتار کر لئے گئے چنانچہ 2019کے آغاز میں خواجہ سعد رفیق اور ان کے چھوٹے بھائی پیراگون کیس میں گرفتار کر لئے گئے۔ وہ 14ماہ جیل میں رہے اور انہیںسپریم کورٹ نے17مارچ 2020کو ضمانت پر رہا کیا۔ خواجہ سعد رفیق جو مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما ہیں ان کا تعلق ایک متوسط سیاسی گھرانے سے ہے جس کی جمہوریت کی جدوجہد میں قربانیاں بےمثال ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے والد محترم محمد رفیق ہماری سیاسی تاریخ کے ناقابلِ فراموش ہیرو ہیں جو مسٹر بھٹو کی غیر جمہوری روش کے خلاف آواز اٹھانے کے ’جرم‘ میں مصطفیٰ کھر کی گورنری کے زمانے میں شہید کر دیے گئے۔ شہید کی باہمت اور عقلمند بیوہ نے حد درجہ نامساعد حالات میں ایک طرف اپنے اولاد کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی اور دوسری طرف سیاسی عمل میں انتہائی سرگرم حصہ لیا اور وہ صوبائی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہو گئیں۔ خواجہ سعد رفیق جو عوام کی نبض پڑھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں، وہ سالہا سال سے قومی اسمبلی کے رکن چلے آرہے ہیں اور نون لیگ کا ایک دانشمند اور عملیت پسند لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے وزیر ریلوے کی حیثیت سے اپنی غیرمعمولی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیا اور وہ جب منصب وزارت پر بیٹھے تو ریلوے کی آمدنی ستارہ اٹھارہ ارب سالانہ تھی، جو ان کی پیہم کوششوں سے 38ارب تک پہنچ گئی اور خسارہ کم ہونے لگا تھا۔ ریل گاڑیاں وقت پر چلنے لگی تھیں اور ان میں سفر بہت آرام دہ ہو گیا تھا، برانچ لائنوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت دوبارہ شروع ہو گئی تھی اور گڈز ٹرینوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہو چکا تھا۔

خواجہ سعد رفیق کا سیاسی مسئلہ یہ بن گیا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو حدود میں رہنے کی بات بلند آہنگ میں کرتے تھے، عدالتی فیصلے کے مطابق نیب نے انہیں گرفتار کر لیا اور اپنے اختیارات کے جابرانہ استعمال کے ذریعے دو پارٹیوں کے مابین سول لین دین کو زمینوں پر قبضے کا معاملہ بنا دیا۔ یہ عدالتی فیصلہ 20جولائی کو جاری ہوا ہےجو ہماری قومی زندگی میں ایک مشعل راہ کی طرح ضوفشاں رہے گا، جس میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اس حقیقت کا احاطہ کیا گیا ہے کہ نیب کے قیام کا اولین مقصد سیاسی وفاداریاں خریدنا، مخالفین کا بازو مروڑنا اور انہیں سبق سکھانا تھا۔ احتساب کا یہ ادارہ اپنی آفرینش ہی سے متنازع رہا اور یک طرفہ احتساب نے اس کی غیرجانبداری کو بری طرح مجروح کر دیا ہے۔ فاضل جسٹس باقر رقم طرازہیں کہ نیب ایک طرف شہریوں کو برسو ں جیل میں بند رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف بڑے بڑے مالی الزامات پر آنکھیں بند کیے رہتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے قرار دیا ہےکہ پیراگون کیس انسانیت کی تذلیل کی بدترین مثال ہے جو آئین کی رو سے ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اس تاریخی عدالتی فیصلے میں زمینی حقائق بیان کئے گئے ہیں اور عوام کو درپیش مسائل کی تاریخی پس منظر میں نشاندہی ہو گئی ہے۔ دونوں فاضل جج صاحبان نے بڑی تفصیل کے ساتھ بنیادی حقوق، شہری آزادیوں کی غایت درجہ اہمیت اور ہر سطح پر آئین اور قانون کے احترام پر زور دیا ہے اور وہ رہنما اصول وضع کیے ہیں جو انصاف کے حصول اور شفاف احتسابی عمل میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔

عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں نیب کی بدنیتی، نااہلی اور قانون شکنی کا پردہ چاک ہو گیا ہے اور یہ امر بھی واضح ہو گیا ہے کہ نیب کی آئین شکنی نےملک و قوم اور معاشرے کو بےانداز نقصان پہنچایا ہے اور دستور میں شہری کو اپنی عزت اور وقار کی جو غیرمشروط ضمانت دی گئی ہے، وہ قدم قدم پر پامال کی جارہی ہے۔ اس مشعل راہ فیصلے میں یہ احساس غالب نظر آتا ہے کہ جب تک ملک میں غیرجمہوری طاقتیں ہوس اقتدار کا مظاہرہ کرتی رہیں گی اس وقت تک ملک میں حقیقی انصاف اور بامقصد احتساب کا نظام قائم نہیں ہو سکے گا اور فرد کے بنیادی حقوق اور احترام کا تحفظ ناممکن رہے گا۔ اس فیصلے نے ریاست، پارلیمان، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ پر بھاری ذمہ داری عائد کر دی ہے اور نیب کو بڑی حد تک اخلاقی اور قانونی جوازسے محروم کر دیا ہے، اس لیے انصاف کے زریں اصولوں پر اسے نئے سرے سے تشکیل دینا اور اوپر سے نیچے تک دیانت دار، اہل اور اچھی شہرت کے افراد کا انتخاب کرنا ہوگا۔ فوری طور پر وہ تمام شہری رہا کیے جائیں جو مہینوں اور برسوں سے قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ میرصحافت شکیل الرحمٰن جو پانچ مہینوں سےجبری حراست میں ہیں، اس کے سبب قومی اور بین الاقوامی صحافتی حلقوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے اور آزادی صحافت کے سنگین مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں ۔ملک میں حالات کو معمول پر لانے اور مختلف الخیال لوگوں کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے عدالتِ عظمیٰ کے شاہکار فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔

تازہ ترین