• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان کی سیاست کو کم اور پاکستان میں رائج جمہوریت کو زیادہ خطرات نظر آ رہے ہیں۔ اپوزیشن کے تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان سے ملک چلایا نہیں جا رہا۔ دوسری طرف عمران خان اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں بہت ہی تنہا ہے۔ یہ بات بہت پرانی ہے۔ اکلوتا بیٹا اور اکیلا بھائی کی حیثیت میں عمران خان اکیلا ہی رہا پھر والدہ کی علالت میں بھی عمران کو اپنی بےچارگی کا بہت ہی احساس رہا اور اس ہی وجہ سے کپتان عمران خان نے اس بیماری کے علاج کے لئے ایک بڑا اسپتال بنایا اور اصل حقیقت یہ ہے جب اس نےاپنی والدہ کے نام پر کینسر اسپتال کا منصوبہ سوچا تو اس کو زیادہ حمایت نہ ملی۔ اس کے اپنے کردار اور عالمی حیثیت میں نامداری کی وجہ سے اسپتال کے لئے پلاٹ اس وقت کی سرکار نے دیے اور ان کو یقین تھا کہ یہ کام عمران خان کے لئے ممکن نہ ہوگا۔

کپتان عمران خان جانبِ منزل اکیلا ہی چلا۔ اس نے اس اسپتال میں اپنی ساری بچت اور آمدنی لگا دی۔ عمران خان نے بیرون ملک تارکین سے رابطہ کیا اور اس کو کمال کی امداد ملی۔ عمران خان کو حوصلہ ملا اور عوام میں اس کی مقبولیت میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ اسپتال کی تعمیر کے سلسلہ میں اس کے تجربات حیران کن تھے۔ اس کو سرکاری قوانین کے سلسلہ میں مشکلات کا سامنا رہا اور اس نے قوانین کا احترام کرنے میں پوری کوشش کی۔ اس کے غیرسرکاری دوستوں نے اس کی مدد کی اور وہ کٹھن حالات کے باوجود اسپتال کو بنانے اور چلانے میں کامیاب ہوا اور اس کو حوصلہ ملا کہ وہ کچھ کر سکتا ہے۔ اس کو اندازہ ہوا کہ ملک کے اندر کرپشن کی وجہ سے ترقی ممکن نہیں اور عوام کی حالت بدلنے سے رہی چنانچہ عمران خان نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ جس کا بنیادی مقصد ’’انصاف سب کے لئے اور آسانی کے ساتھ‘‘ تھا۔ تقریباً 22سال کی محنت و مشقت کے بعد عمران خان مخلوط حکومت کے وزیراعظم بن گئے اور دو سال مکمل کر لئے مگر ان کے پاس اختیارات کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ اسمبلی میں ان کی اکثریت واجبی سی ہے اور اتنا اختیار بھی نہیں کہ وہ کوئی قانون ہی بنوا سکیں اور آئین میں عوام کے مفاد میں کوئی ترمیم لا سکیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کی ٹیم ان کی مرضی کے مطابق کھیلتے نظر نہیں آتی۔ ایک تو میڈیا کے حوالہ سے عمران خان کی ٹیم بڑی بے بس ہے، آئے دن ان کی اپنی صفائی اور نت نئے تجربوں کی کاوش ہی ان کو پریشان کر دیتی ہے۔ پہلے چینی کے اسکینڈل میں رپورٹ پبلک کی گئی۔ بڑا اچھا اقدام تھا مگر حاصل کیا ہوا اور کیا کسی کو نامزد کیا جا سکا اور قیمت اب بھی چینی کے سوداگر ہی طے کرتے ہیں ، ریاست بے بسی کی تصویر ہے اور فیصلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ پھر پٹرول کے معاملہ میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس کے بارے میں سب کچھ پوشیدہ ہے۔ اب تازہ ترین معاملہ مشیروں کا ہے جن میں سے اکثر دو ملکوں کی شہریت کے حامل ہیں۔ یہ بات قابل فکر نہیں وہ بھی محب وطن لوگ ہیں اور ان کے اثاثے بھی ایسے نہیں کہ ان پر انگلی اٹھائی جا سکے۔ مگر میڈیا نے دوہری شہریت پر سوال اٹھا دیا۔ سرکار جواب دینے میں شرما رہی ہے۔ اس سے تارکین وطن بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

عمران خان اس ساری صورتحال میں مکمل طور پر تنہا نظر آ رہے ہیں۔ ان کی کابینہ میں کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں آتی جو عوامی معاملات میں عوامی مفادات کا تحفظ کرتی ہو۔ عمران خان کو شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کرکٹ کی ٹیم اور سیاست کی ٹیم بالکل ایک جیسی ہے ،سب لوگ اپنے لئے اور اپنی مرضی سے کھیل رہے ہیں۔ پھر ہمارے سیاسی لوگ اور سماجی اشرافیہ سرکار کو کوئی اچھی تجویز نہیں دیتے اور جناب بلاول بھٹو زرداری کی خوش کلامی کا محور صرف یہ ہوتا ہے کہ عمران خان کو جانا ہو گا۔ بھائی ان سے کوئی پوچھے ان کو آپ مل کر بھی نکالنے کا ووٹ بینک بنا نہیں سکے، آئے دن سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی رہتی ہے اور اوپر سے مسلم لیگ نواز کے دوست تقسیم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کو سروں پر منڈلاتے خطرات کا بالکل احساس نہیں ہے۔

پاکستان میں اندرون ملک سیاسی خلفشار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کرپشن کے معاملات پر من حیث القوم ہمارا رویہ بالکل اچھا نہیں ہے۔ کرپشن کا ناسور قانون اور انصاف کو مفلوج کرتا جا رہا ہے۔ ایسے میں عمران خان کیا کرے۔ وبا کے دنوں کے بعد دنیا اور ملک بدلتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف حاضر سرکار بہت سارے ایسے اقدامات کر رہی ہے جو ہماری معیشت کے لئے ضروری اور اہم ہیں مگر دوسری طرف گزشتہ حکومتوں کے معاہدے ہماری معیشت میں مسلسل گراوٹ پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ابھی بھی اہم ادارے معافی اور تلافی کو مشکلات کا حل بتا رہے ہیں مگر ہماری سیاسی اشرافیہ میں میاں شہباز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کے سپوت بلاول بھٹو زرداری خود غرضی کے سمندر میں دوست بن رہے ہیں؎

خود غرض بنا دیتی ہے شدت کی طلب

پیاسے کو کوئی دوسرا پیاسا نہیں لگتا

تبدیلی کا نعرہ اب بدل کر بدلنے کی سیاست میں آ چکا ہے، آنے والے دنوں میں نظام کو بدلنے کی پُر امن کوشش زیادہ بار آور نظر نہیں آ رہی اور خطرے کا احساس صرف میڈیا کو ہی ہے۔

تازہ ترین