• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں صوبائی و بلدیاتی حکومتوں کے دعوے دھرے رہ گئے


کراچی میں صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، میئر کراچی وسیم اختر اور وزیرِ بلدیات ناصر حسین شاہ کی کارکردگی بیانات اور اختلافات تک ہی رہی۔

ایک ارب روپے سے زائد رقم سے نالوں کی صفائی کے دعوے مشکوک ہوگئے، نالوں کی صفائی نہ ہوسکی۔

بارش اور سیوریج کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا لوگ شدید مشکلات کا شکار ہوگئے لیکن متعلقہ سرکاری ادارے حرکت میں نہ آسکے۔

میگا سٹی اور معاشی حب کراچی کی ترقیاتی اسکیمیں کہاں رہ گئیں، بلدیاتی نظام دور دور تک نظر نہیں آرہا۔

سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور میونسپل ادارے نہ جانے کس کام میں مصروف ہیں۔

صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے پرسکون دعوے بھی سامنے آئے اور پانی میں بہہ گئے۔

شہر کے میئر وسیم اختر بارشوں سے پہلے فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ کرتے نظر آئے اور نالوں کی صفائی کی یقین دہانی بھی کروائی لیکن دو دن میں بارشوں نے کارکردگی کی قلعی کھول دی۔

منتخب بلدیاتی نمائندے صوبائی حکومت کو الزام دیتے نظر آتے ہیں۔

نالوں کی صفائی ہوئی بھی تو کچرا کناروں پر ڈال دیا گیا جو واپس اسی میں شامل ہوگیا، کئی علاقے بارش اور سیوریج کے پانی میں ڈوب گئے، شہر کا کچرا نالوں میں ہے اور گندا پانی عوام کے گھروں میں اور شاہراہوں پر۔

اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے دعوے تو اپنی جگہ لیکن صوبے اور شہر میں موجود سرکاری مشنری نہ جانے کہاں غائب ہوگئی۔

کراچی کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان کیوں ہے، شہر کے لیے سیوریج اور پانی کے بڑے منصوبے کیوں تیار نہ کیے جاسکے یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ارباب اختیار کو ہی دینا ہے۔

تازہ ترین