• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منگل کی سہ پہر سات اعشاریہ نو درجے کے زلزلے نے نہ صرف پورے پاکستان بلکہ انڈونیشیا سے سعودی عرب تک عالم اسلام کے بہت بڑے حصے کو ہلا ڈالا۔ یہ قیامت کے عظیم زلزلے کا ایک ٹریلر تھا جس کا ذکر سورہ زلزال سمیت قرآن میں کئی مقامات پر بڑے موٴثر انداز میں کیا گیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اتنے شدید جھٹکوں کی نسبت سے نقصان بہت کم ہوا، ورنہ سات ڈگری سے اوپر کے زلزلے اکثر انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔ حالات کے محض ظاہر کو دیکھنے والوں کے لئے ایسے واقعات کی حیثیت اتفاقی حوادث سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان آسمانی آفات میں اگر انہیں عبرت و نصیحت کا کوئی پہلو دکھانے کی کوشش کی جائے تو قرآن کے مطابق اُن کا جواب ہوتا ہے”ہم سے پہلے لوگوں پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں“۔ لیکن جو لوگ جانتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ایسا بااختیار حاکم اور ماسٹر مائنڈ موجود ہے جو ”بحر وبر میں جو کچھ ہے سب سے واقف ہے، درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو، زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو، فیصلے کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے(الانعام:62-59)“۔ انہیں ان سانحات میں اپنے رب کے اشارے صاف نظر آتے ہیں۔چنانچہ ارشاد نبوی کے مطابق ”مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں کھول دیا“۔ اس فرمان رسالت کا تقاضا ہے کہ حالیہ زلزلے کو ہم محض یہ کہہ کر نظر انداز نہ کر دیں کہ یہ سب جغرافیائی عوامل کے سبب ہوتا ہے کیونکہ جغرافیائی عوامل بھی خالق کائنات ہی کی تخلیق ہیں اور اسی کے حکم سے حرکت میں آتے ہیں لہٰذا ہمیں زمینی حقائق کے ساتھ آسمانی حقائق پر بھی غور کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ جن قواعد و ضوابط کے تحت اس دنیا کو چلا رہا ہے انہیں اس نے ہمارے نام اپنے حتمی حکم نامے میں پوری طرح بیان کر دیا ہے۔ ناشکری، ظلم اور سرکشی کی راہ اختیار کرنے والی پچھلی ایسی تمام قوموں کے ساتھ جن پر نبیوں کے ذریعے حجت تمام کی گئی، اس نے انہی ضوابط کے مطابق معاملہ کیا ۔ تنبیہ کے لئے نازل کی جانے والی آفات سے سبق نہ سیکھنے کی پاداش میں یہ قومیں بالآخر سیلابوں، طوفانوں، آندھیوں ،زلزلوں اور پتھروں کی بارش وغیرہ کے ذریعے صفحہٴ ہستی سے مٹا دی گئیں۔ سورہٴ اعراف میں ان میں سے چند کا تذکرہ کرنے کے بعد قوموں کی خوشحالی اور بدحالی کا عمومی قاعدہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے ”کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی اختیار کر لیں۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل دیا۔ یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں۔آخرکار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی“۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ ان تنبیہی آفات پر ان قوموں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے تھا کہ کامیابی اور کامرانی ان کا مقدر بنتی۔قرآن کے الفاظ ہیں”اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور خدا سے ڈرنے کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ مگر انہوں نے ناشکری کا رویہ اپنایا لہٰذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے“ (آیات 94 تا 99)۔
ایمان اور خدا سے ڈرنے کے رویّے سے، جس کا مطالبہ گزشتہ اقوام سے کیا گیا تھا،کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت سورہٴ مائدہ کی 66ویں آیت میں یوں کی گئی ہے ”اگر یہ اہل کتاب ایمان لے آتے اور خدا سے ڈرنے کی روش اختیار کرتے ہم ان کی برائیاں ان سے دور کردیتے،اگر انہوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں تو ان کے لئے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ راست رو بھی ہیں لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے“۔ اس آیت سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ایمان اور خدا ترسی کا تقاضا ہے کہ الله کے احکام اجتماعی زندگی میں نافذ کئے جائیں۔ ماضی کی جن قوموں نے اپنے نبیوں کے ذریعے بھیجے جانے والے آسمانی صحیفوں پر اپنی زندگی کا نظام استوار نہیں کیا وہ بالآخر اسی جرم میں خدا کے غضب کا شکار ہوئیں۔ ہمارے لئے یہ قانون بدل نہیں دیا گیا ہے۔ اگر آج وحی کا دروازہ کھلا ہوتا اور ہمارے حال زار کے بارے میں کوئی کلام نازل ہوتا تو ایسی ہی کسی آیت میں تورات اور انجیل کے ساتھ قرآن کا نام بھی شامل ہوتا۔ اس میں ہماری اس شکایت کے جواب میں کہ ”برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر“ بتایا جاتا کہ تمہیں غیروں کے تسلط، معاشی بدحالی، باہمی عداوتوں اور آسمانی آفات کا سامنا اس لئے ہے کیونکہ تم نے قرآن کو اپنی اجتماعی زندگی میں نافذ نہیں کیا۔ ہم اہل پاکستان کا معاملہ تو اس حوالے سے سب سے سنگین ہے کیونکہ ہم نے ساڑھے چھ دہائی پہلے یہ ملک حاصل ہی قرآن و سنت کے نفاذ کے وعدے پر کیا تھا لیکن اس پر عمل کا خانہ اب تک خالی ہے ۔ایسی صورت میں اللہ کی ناراضی سے بچے رہنے کی توقع آخر کیونکر رکھی جا سکتی ہے جبکہ پچھلی قوموں کی طرح نزول قرآن کے بعد کے دور کے لوگوں سے بھی صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ”پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی ان پر اچانک رات کے وقت نہ آجائے گی جبکہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ آپڑے گا جب وہ اپنے کھیل تماشوں میں مگن ہوں؟“ (الاعراف:99) یعنی جس قانون کے تحت پچھلی قوموں کو ان کی مسلسل سرکشی پر نیست و نابود کیا جاتا رہا، وہ آج بھی نافذ ہے۔ البتہ رحمت اللعالمین صلی الله علیہ وسلم کے صدقے میں یہ وعدہ ضرور کیا گیا ہے کہ اس امت کو مکمل طور پر ہلاک نہیں کیا جائے گا لیکن بداعمالیوں پر تنبیہ بہرحال جاری رہے گی۔ سورہٴ انفال کی 25ویں آیت میں ہم سے کہا گیا ہے ”بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو“۔ ارشاد نبوی کی رو سے آفت عام کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ذاتی زندگیوں میں پاکباز لوگ بھی معاشرے میں پھیلی برائیوں سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ پاکستان میں بھی ہم سات آٹھ سال پہلے ایک انتہائی قیامت خیز زلزلے اور اس کے بعد پے درپے شدید تباہ کن سیلابوں سے دوچار ہوچکے ہیں۔ آئندہ ایسی آفات عام سے بچنے کا راستہ قرآن کی رو سے اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کے دین کے نفاذ کے جس وعدے پر مسلمانان برصغیر نے یہ ملک حاصل کیا تھا اسے پورا کیا جائے۔ ہمیں یہ موقع چند روز بعد ہونے والے انتخابات کی شکل میں مل رہا ہے۔ دیانتدار، خداترس اور باصلاحیت نمائندوں کو، جو تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کا حقیقی عزم رکھتے ہوں، ووٹ دے کر ایک عام پاکستانی اپنی یہ ذمہ داری ادا کر سکتا اور اللہ کے نزدیک بری الذمہ قرار پاسکتا ہے۔
تازہ ترین