• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچن میں عصمت اللہ بیگ کا افسانہ پڑھا تھا ’’دادا لال بھجکڑ‘‘۔غالباًعصمت اللہ بیگ حیدرآباد دکن کے معروف مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کا قلمی نام تھا۔جب یہ افسانہ لکھا گیا تب شاید ’’لال بھجکڑ‘‘کا کردارمعدوم ہورہا تھااس لئے مصنف کو یہ کہنا پڑا کہ سو سال پہلے تک ہندوستان کا بچہ بچہ ’’لال بھجکڑ‘‘کے نام نامی اور اسم گرامی سے واقف تھا مگر آج یہ کیفیت ہے کہ بچے تو رہے ایک طرف بڑے بھی ان کا نام سن کر بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔چونکہ آج کل’’ لال بھجکڑ‘‘کا کردار پھر سے دھندلا رہا ہے اس لئے میں نے سوچا کیوں نہ اس عجوبہ روزگار ہستی کی یاد یں تازہ کی جائیں۔پہلے تو آپ یہ جان لیں کہ ’’لال بھجکڑ‘‘کسی عہد کا غلام نہیںبلکہ یہ ایک ابدی اور سدابہار کردار ہے جو بار بار جنم لیتا ہے اور اکنافِ عالم کو اپنی گونا گوںصلاحیتوں سے روشناس کراتا ہے۔پہلی بار ’’لال بھجکڑ‘‘ کا نزول کہاں اور کب ہوا ؟اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔مرزا فرحت اللہ بیگ کا خیال ہے کہ اس نابغہ روزگار شخصیت کا ظہور دو آبے یا گنگا کے میدان میں ہوا جہاں ہندو اور مسلمانوں کے میل جول سے ایک عام بولی پیدا ہوگئی تھی جس کو ہم اردو، اور باہر والے ہندوستانی کہتے ہیں۔لال بھجکڑ میں بھجکڑ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ انہیں ابتدا ہی سے پہیلیاں بوجھنے میں کمال حاصل تھا۔وہ معمہ جسے حل کرنے کے لئے لوگ گھنٹوں سوچ بچار کرتے رہتے،قبلہ لال بھجکڑ اسے چٹکی بجاتے ہوئے حل کر دیتے اس لئے چار دانگ عالم میں ان کی ذہانت و فطانت کے ڈنکے بجنے لگے۔چونکہ اس عہد کے ’’لال بھجکڑ ‘‘سے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اس لئے ہم اپنے دور کے ’’لال بھجکڑ ‘‘کی طرف آتے ہیں۔عصر حاضر کے ’’لال بھجکڑ‘‘ جنوبی ایشیا کے ملک ’’ترکستان‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اپنے جد امجد ’’دادالال بھجکڑ‘‘کی طرح ’’لال بھجکڑثانی‘‘بھی دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگئے اور بہت جلد ہیرو کا درجہ پالیا تو انہوں نے خود کو قیادت کے لئے پیش کردیا ۔پہیلیاں بوجھنے اور بڑے بڑے لاینحل مسائل پلک جھپکنے میں حل کردینے کا وصف تو ’’لال بھجکڑثانی ‘‘کو پیدائشی طور پر ہی عطا ہوا تھا اوپر سے ہمارا یہ ’’لال بھجکڑثانی‘‘اسمارٹ بھی تھا تو لوگوں نے اس کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیا۔لوگ اس سے پوچھتے کہ اگر تم نے اقتدار سنبھال لیا تو کیا تبدیلی لائو گے؟وہ تردد کئے بغیر جواب دیتا کہ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلاب برپا کرکے تمہاری تقدیر بدل دوں گا۔کوئی معیشت سے متعلق سوال کرتا تو وہ کہتا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے ،اگر کرپشن اور منی لانڈرنگ کا خاتمہ ہو جائے تو بھوک اور ننگ ختم ہو سکتی ہے ۔اس کی باتیں سن کر لوگ دیوانہ وار تالیاں پیٹتے اور نعرے لگاتے۔ اس نے وعدہ کیاکہ اسے ملک چلانے کا موقع دیا گیا تو وہ ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے گا اور اگر کبھی قرض لینے کی نوبت آئی تو وہ خودکشی کرلے گا مگر قرض نہیں لے گا۔رفتہ رفتہ سنجیدگی سے اس بات پر غور ہونے لگا کہ جہاں اتنے لوگوں کو آزمایا ہے ،کیوں نہ اس بار ’’لال بھجکڑ ثانی ‘‘کو بھی ایک موقع دیکر دیکھ لیا جائے۔اگرچہ بعض لوگوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس موقف کا اظہار کیا کہ جہاں بانی و حکمرانی کوئی کھیل نہیںکہ اسے ’’لال بھجکڑ ثانی‘‘کے حوالے کردیا جائے۔ان کا خیال تھا کہ پہیلیاں بوجھنے اور حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنے میں بہت فرق ہے۔ ’’لال بھجکڑثانی ‘‘ کا جادو اس قدر سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ ان افراد کی رائے نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی اور ملک کے کرتا دھرتا سمجھے جانے والے بااثر افراد نے ’’لال بھجکڑ ثانی ‘‘کو اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا ۔کرسی پر بیٹھتے وقت ’’لال بھجکڑ ثانی‘‘کی ہنسی چھوٹ گئی شاید اسے خود بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ قوم نے آخر کار اسے مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پرقبول کرلیا ہے ۔’’لال بھجکڑ ثانی ‘‘کے برسر اقتدار آتے ہی حالات ٹھیک ہونے کے بجائے بد سے بدتر ہونے لگے مگر سب یہ سوچ کر برداشت کرتے رہے کہ برسوں کی خرابیاں دنوں میں دور نہیں ہو سکتیں اور پھر ان ٹرینڈ شخص کوحکومتی اسرار ورموز سیکھنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے ۔دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے مگر عام آدمی کے دن تبدیل ہونے کے بجائے دشوار تر ہوتے چلے گئے کیونکہ قبلہ ’’لال بھجکڑ ثانی‘‘ تو محض گفتار کے غازی تھے اور ہر مسئلے کو پہیلی سمجھ کر اپنے انداز میںحل کرنے کی کوشش کرتے ۔آپ نے وہ مثال تو سنی ہوگی کہ جس شخص کے ہاتھ میںہتھوڑی ہو اسے ہر مسئلہ میخ نظر آتا ہے ۔عالمی مرتبت ’’لال بھجکڑ ثانی‘‘کے ہاتھ میں بھی چند ڈائیلاگ ہتھوڑی کی مانند موجود رہتے اور وہ ہرمعاملے کو میخ سمجھ کر گاڑنے کی کوشش کرتے۔اس معاملے کو سلجھانے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ’’لال بھجکڑ ثانی‘‘ نہایت قابل اور اپنے شعبے میں مہارت کے حامل افراد کی خدمات بطور مشیر اور وزیر حاصل کرتے اور ان کے تجربے کی بنیاد پر کام چلانے کی کوشش کی جاتی مگر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے ارد گرد لال بھجکڑوں کی فوج ظفر موج جمع کرلی۔جب حالات بہت بگڑنے لگے، امیدیں دم توڑنے لگیں اور خواب ریزہ ریزہ ہونے لگے تو کندھوں پر بٹھانے اور داد وستد کے ڈونگرے برسانے والے ’’لال بھجکڑثانی‘‘کو برا بھلا کہنے لگے ۔مگر میرا خیال ہے کہ اس میں بیچارے ’’لال بھجکڑ ثانی‘‘کا کوئی قصور نہیں۔غلطی تو ان کی ہے جنہوں نے پہیلیاں بوجھنے والے سے ملکی مسائل کا حل تلاش کرنے کی امید باندھ لی۔

نوٹ: عصمت اللہ بیگ کے افسانے کی طرح یہ کالم بھی تخیلاتی اور فرضی ہے کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔

تازہ ترین