سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مسلمان کی مسلمانی لا الٰہ الا اللہ سے مشروط ہے۔ اس سے جتنا رشتہ مضبوط ہوگا، مسلمانی اُسی قدر مضبوط ہوگی کیونکہ لا الٰہ الا اللہ کو خلوص سے اپنانے کے بعد انسانی قلب ہر قسم کے بتوں سے پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور دنیاوی مفادات ہیچ لگنے لگتے ہیں۔ عام طور پر انسانی دل حرص و ہوس، اقتدار، دولت، شہرت کے بتوں سے بھرا رہتا ہے۔ نفسانی خواہشات کا لامتناہی سلسلہ اسے بےچین رکھتا ہے۔ یوں اس کی ساری توجہ ان خواہشات کی تکمیل پر مرکوز رہتی ہے اور ذہن سود و زیاں میں کھویا رہتا ہے۔ نفسانی خواہشات حرص و ہوس کی منازل طے کرتے کرتے چھوٹے چھوٹے بت بن جاتی ہیں۔ انسان انجانے میں ان بتوں کی پرستش میں اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ سچ، حرام حلال اور جائز و ناجائز کی تفریق سے آزاد ہو جاتا ہے۔ خواہشات اور آرزوئوں کی تکمیل میں جھوٹ سچ کی تمیز ختم ہو جائے تو سمجھ لیجئے کہ لا الٰہ الا اللہ سے رشتہ کمزور یا منقطع ہو چکا ہے اور قلب نورِ الٰہی سے منور ہونے کے بجائے بت خانہ بن چکا ہے اور انسان سکونِ قلب سے محروم ہو چکا ہے۔ دنیاوی حرص و ہوس کے بت بےسکونی، تکبر، نفرت و انتقام، عیش و عشرت کی بےلگام خواہشات اور مخلوقِ خدا کو کمتر سمجھنے کے سفلی جذبات پیدا کرتے ہیں جنہیں صرف لا الٰہ الا اللہ کے ہتھیار سے توڑا جا سکتا ہے بشرطیکہ اپنے آپ کو خلوصِ نیت سے لا الٰہ الا اللہ کے تابع کر دیا جائے۔
میں نے پوچھا حضور انسان کب قلبی سکون، ذہنی اطمینان، خیال کی روشنی اور عزت پاتا ہے۔ انہوں نے فوراً بلا سوچے سمجھے جواب دیا ’’جب وہ علامہ اقبال کے اس شعر کا مفہوم اس طرح سمجھ لے کہ اسے اپنی ذات پر طاری کر لے‘‘۔ پھر انہوں نے وہ شعر پڑھا اور جب وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے تو اُن کی آنکھوں سے چمک اور روشنی یوں برس رہی تھی جیسے بادل کڑکیں اور بجلی گرجے تو لمحوں کے لئے اجالا پھیل جاتا ہے۔ وہ شعر کیا تھا، فلسفہ زندگی تھا، جسے سمجھنا آسان لیکن اپنانا نہایت مشکل ہے۔ کہنے لگے پہلے شعر سن لو، پھر تمہیں آج کی زندگی اور سیاست میں فساد، رسوائی، ذلت اور شرمندگی کا راز سمجھ میں آ جائے گا۔ علامہ نے دہائیوں قبل ایک ایسی سچائی سادہ الفاظ میں بیان کر دی تھی جو قرآن مجید کی تعلیمات کا بنیادی اصول ہے، شعر ہے ؎
یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
ہمارے ملک میں سارا فساد کیوں برپا ہے؟ موجودہ فساد اور ذلت و رسوائی کی بنیاد مال و دولت دنیا ہے، رشتہ و پیوند ہے۔ اسی لئے قرآن مجید مال و دولت اور اولاد کو فتنہ قرار دیتا ہے اور اسی لئے مال و دولت اور رشتوں کو اقبال نے بتانِ وہم و گماں کہا ہے۔ جب تک انسانی جدوجہد لا الٰہ کے تابع رہے اس میں برکتِ الٰہی شامل رہتی ہے لیکن جب انسان مال و دولت کی حرص و ہوس کا غلام بن کر لا الٰہ کے اصولوں سے آزاد ہو جائے تو وہ بتوں کا پجاری بن جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ انسان کی تدبیر کے علاوہ ایک فیکٹر مقدر کا بھی ہے۔ پکڑ اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ اگلے جہان کی پکڑ ہمیں نظر نہیں آتی جبکہ اس جہاں کی پکڑ کا تماشا ساری دنیا دیکھتی، ہنستی اور افسوس کرتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کرتا۔
پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کچھ سوچنے لگے۔ میں گم سم مؤدب بیٹھا انہیں بےزبان آنکھوں سے دیکھے جا رہا تھا۔ بےزبان اس لئے کہ آنکھوں کی بھی زبان ہوتی ہے جو بولتی، پیغام دیتی اور پیغام موصول کرتی ہے۔ ایک زبان وہ ہے جسے اللہ پاک نے ہمارے دانتوں کی جیل میں قید کر دیا ہے اور ایک زبان اللہ پاک نے انسانی جسم کے تمام اعضاء کو عطا کر دی ہے۔ ہاتھ کے اشارے بھی زبان، قدموں کی رفتار اور سمت بھی زبان، سر کے ہلنے، جھومنے اور ساکت ہونے کی بھی زبان ہوتی ہے جو غور کرنے والوں کو سنائی دیتی اور سمجھ میں آتی ہے۔ زبان کے بعد دوسری سب سے مؤثر زبان آنکھوں کی ہوتی ہے۔ اگر موجودہ فساد کے کرداروں اور ان کے حواریوں کی بولتی آنکھوں کو سنو تو تمہیں ہزارہا پیغامات ’’سنائی‘‘ دیں گے، کسی کی آنکھ میں بےبسی، پچھتاوا، انتقام، پریشانی اور غصے کے خوفناک مناظر دکھائی دیں گے تو کسی کی پھٹی پھٹی نگاہیں یہ راز فاش کرتی ہیں کہ اس کی آنکھوں اور زبان کا تعلق یا رشتہ ٹوٹ چکا ہے، وہ بول تو رہا ہے لیکن دل سے نہیں۔
ایک دم انہوں نے مجھے مخاطب کیا۔ ڈاکٹر صاحب میری بات یاد رکھو کہ یہ دنیاوی عزت کے دیوانے نہیں جانتے کہ ایک عزت وہ ہوتی ہے جس کا مظاہرہ دنیا کرتی ہے۔ لوگ آپ کی نگاہ التفات کے منتظر رہتے اور آپ کو ’’طلب‘‘ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ سب بتانِ وہم و گماں ہیں اصل عزت وہ ہوتی ہے جو خود انسان اپنی کرتا ہے۔ انسان خود اپنی عزت اس وقت کرتا ہے جب اس کا ضمیر مطمئن، قلب منور اور نیت صاف ہو۔ اگر انسان کو احساس ہو کہ وہ دولت کی ہوس میں اندھا ہو کر ہیرے جواہرات اکٹھے کرتا رہا ہے، دوسروں کا حق مارتا رہا ہے، لوگوں سے جھوٹ بولتا اور اقتدار کے حصول کے لئے دھوکہ دیتا رہا ہے، لوگوں کو استعمال کر کے ان کی ڈیڈ باڈیز (DEAD BODIES)پر چلتا رہا ہے، قومی خزانے کو بےدریغ لٹاتا اور اقتدار کو دولت اکٹھی کرنے کے لئے استعمال کرتا رہا ہے، انسانوں کی خرید و فروخت میں ملوث رہا ہے وغیرہ وغیرہ تو ایسا انسان کبھی اپنی عزت نہیں کر سکتا چاہے لوگ اسے سر پر بٹھائیں اور آنکھوں پر سجائیں۔
یہ دنیا، یہ زندگی درحقیقت سب کچھ فریب نظر اور وہم و گمان ہیں۔ اس فریب نظر کے بت مال و دولت اور رشتہ و پیوند ہیں جن کی پوجا کرتے ہوئے انسان نظر نہ آنے والی بت پرستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اقبال نے سچ کہا ہے کہ یہ سب کچھ بتان وہم و گمان ہیں۔ ابدی اور اصلی حقیقت فقط لا الٰہ الا اللہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)